کہتے ہیں تو کیوں لطف کا قائل نہیں ہوتا
آنکھوں میں مروت کی جگہ تل نہیں ہوتا
کیا آئے جو جانا انہیں مشکل نہیں ہوتا
میں جوش قلق یوں تیرا قائل نہیں ہوتا
پہلو تو نکل آتے اگر دل نہیں ہوتا
نظروں کا بچانا تری مشکل نہیں ہوتا
آئینہ دہر وعکس کے نظاروں کو روکو
کیوں بیچ میں پردہ کوئی حائل نہیں ہوتا
گر دام چمن میں ہے تو مقراض قفس میں
صیاد کبھی فکر سے غافل نہیں ہوتا
غمزہ تو بلا خیز ہے عشقہ ہے قباحت
مرنا تو ذرا بات پہ مشکل نہیں ہوتا
جب حال میرا غیر ہے پھر فرق رہا کیا
کیوں غیر میرے حال کے شامل نہیں ہوتا
مرنا ہی پڑا عذر جفا کار یہ ورنہ
تھی موت جو میں موت کے قابل نہیں ہوتا
کم سن ہو خدا کے لئے ہٹ جاؤ یہاں سے
لڑکوں کا تماشا سر ِ بسمل نہیں ہوتا
ہر روز نئے طور نظر آئے ہیں شعلہ ؔ
کم بخت کے قابو میں کبھی دل نہیں ہوتا