ادھر تو پہلو میں دل نہیں ہے ادھر جو دیکھو جگر نہیں ہے
اک آہ سینے میں رہ گئی ہے سو اس میں بھی کچھ اثر نہیں ہے
نگہ اٹھا ئی تو قہر آیا جدھر کو دیکھا صفیں الٹ دی
قضا کی شمشیر کھیلتی ہے تمہاری ترچھی نظر نہیں ہے
ابھی تو باقی ہے رات صاحب کہاں سے سیکھے ہو اضطرابی
یہ روئے زیبا کی روشنی ہے یقیں مانو سحر نہیں ہے
جو تیری رفتار کے ہیں کشتہ انہوں نے کروٹ تلک نہ بدلی
کہاں کا محشر ہے صور کس کا یہاں کسی کو خبر نہیں ہے
نہ ہونے پر تو ستم یہ باندھی جو کچھ بھی ہوتی تو دیکھتی پر
بڑی الہی یہ خیر گزری کہ ان بتوں کے کمر نہیں ہے
نہیں ہے اے شعلہ ؔ بات خالی کہیں تو جاتا ہے یہ نکل کر
جو دل کو پہلو میں ڈھونڈتا ہوں تو پاتا وہ دوپہر نہیں ہے