Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس


منشی بنواری لال شعلہ

ادھر تو پہلو میں دل نہیں ہے ادھر جو دیکھو جگر نہیں ہے

ادھر تو پہلو میں دل نہیں ہے ادھر جو دیکھو جگر نہیں ہے

اک آہ سینے میں رہ گئی ہے سو اس میں بھی کچھ اثر نہیں ہے

 

نگہ اٹھا ئی تو قہر آیا جدھر کو دیکھا صفیں الٹ دی

قضا کی شمشیر کھیلتی ہے تمہاری ترچھی نظر نہیں ہے

 

ابھی تو باقی ہے رات صاحب کہاں سے سیکھے ہو اضطرابی

یہ روئے زیبا کی روشنی ہے یقیں مانو سحر نہیں ہے

 

جو تیری رفتار کے ہیں کشتہ انہوں نے کروٹ تلک نہ بدلی

کہاں کا محشر ہے صور کس کا یہاں کسی کو خبر نہیں ہے

 

نہ ہونے پر تو ستم یہ باندھی جو کچھ بھی ہوتی تو دیکھتی پر

بڑی الہی یہ خیر گزری کہ ان بتوں کے کمر نہیں ہے

 

نہیں ہے اے شعلہ ؔ بات خالی کہیں  تو جاتا  ہے یہ نکل کر

جو دل کو پہلو میں ڈھونڈتا ہوں تو پاتا وہ دوپہر نہیں ہے