دل کی اک حرف وحکایات ہے یہ بھی نہ سہی
گر میری بات میں کچھ بات ہے یہ بھی نہ سہی
عید کو بھی وہ نہیں ملتے مجھ سے نہ ملیں
اک برس دن کی ملاقات ہے یہ بھی نہ سہی
دل میں جو کچھ تمہارے نہیں پنہاں مجھ سے
ظاہری لطف ومدارات ہے یہ بھی نہ سہی
زندگی ہجر میں بھی یونہی گزرجائے گی
وصل کی ایک ہی تو رات ہے یہ بھی نہ سہی
میری تربت پہ لگاتے نہیں ٹھوکر نہ لگاؤ
یہ ہی بس ان کی کرامات ہے یہ بھی نہ سہی
کاٹ سکتے ہیں گلا خود بھی نہ کیجئے ہمیں قتل
آپ کے ہاتھ میں اک بات ہے یہ بھی نہ سہی
عوض ِ خونِ جگر بادۂ ِگل رنگ تو ہو
اور یہاں یہ بھی مساوات ہے یہ بھی نہ سہی
قتل قاصد پہ کمر باندھی ہے شعلہ ؔ اس نے
خط وکتابت کی ملاقات ہے یہ بھی نہ سہی
٭ علامہ شبلی نعمانی ؒ کو بنواری لال شعلؔہ کا یہ شعر بہت پسند تھا ،وہ ان کی نکتہ آفرینی و بلاغت کی تعریف کیا کرتے تھے۔