آغا شاعر قزلباش کا پورا نام آغا ظفر علی بیگ تھا ، شاعری میں تخلص شاعر تھا،ان کی پیدائش 5 مارچ 1871ء کو کشمیری گیٹ کے محلہ کھڑکی ابراہیم خان دہلی میں ہوئی ، اباء و اجداد کا وطن مشہد ایران تھا،ان کے مورث اعلی نادرشاہ کی فوج کے ساتھ ہندوستان آئے، قزلباش ترکی لفظ ہے جس کے معنی سرخ سر کے ہوتے ہیں ، ایرانی صفوی شیعہ گروہ کے وہ لوگ جو سپاہی ہوتے تھے اور سرخ ٹوپی لگاتے تھے انھیں قزلباش کہا جاتا تھا ، ان کے مورث اعلی مغلیہ سلطنت میں اعلی عہدوں پر فائز رہے، سلطنت کے زوال کے بعد انگریزی دور حکومت میں بھی اپنی علمی قابلیت کی بنیاد پر ان کا خاندان اعلی عہدوں پر متمکن رہا ، عہد مغلیہ میں ان کے پردادا آغا اور رجب علی بیگ دہلی میں تھانیدار تھے، ان کے دادا آغا بندہ علی بیگ انگریزی دور حکومت میں پہلے دہلی فوج میں بعد ازاں لاہور میں کرنل رینی کے پاس ملازمت کرتے تھے،ان کے والد آغا عبد علی بیگ فدائی اور چچا حیدر علی بیگ حیدر شاعر اور محکمہ آبپاشی میں اُورسیری کے عہدہ پر فائز تھے، والد اور چچا شعر و سخن میں غالب کے تلامذہ میں سے تھے، ان کا خانوادہ آسودہ حال اور تعلیم سے بہرہ ور تھا ، ان کی ابتدائی تعلیم گھر میں ہی ہوئی،والدہ فارسی گو تھیں چنانچہ گھر میں فارسی ہی بولی جاتی تھی،ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے آٹھویں جماعت تک اینگلو عربک اسکول اجمیری گیٹ سے تعلیم حاصل کی،اسی اثناء میں ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا ، والد نے دوسری شادی کرلی ، سوتیلی ماں کے رویے سے تنگ آکر انھوں نے گھر بار چھوڑ دیا اور جامع مسجد کے پاس کلیم اللہ شاہ کی مزار کو ٹھکانہ بنا لیا وہیں ان کی رسائی نوابین لوہارو کے خانوادے سے ہوگئی،نواب سعیدالدین احمد خان طالب(غالب سے شرف تلمذ حاصل تھا ) اور نواب مرزا شجاع الدین تاباں(غالب کے شاگرد شاداں کے شاگرد ) کے زیر سرپرستی رہنے کا موقع ملا، نوابین نے آغا شاعر کی دستگیری کی اور رموز شاعری سے آگاہ کیا، حالانکہ ان کا شعری ذوق موروثی تھا، ابتدا میں انہوں نے طالب سے ہی اصلاح سخن لی اور کثرت مطالعہ سے اپنی علمی استعداد کو وسیع کیا انگلش پر بھی دسترس حاصل کی، ولیم شیکسپیئر کی ناولوں کے ترجمے کئے، 1897ءمیں عملی زندگی کا آغاز بطور صحافی ,,آصف الاخبار ,, کے اجراء سے کیا،ان کی شاعری کا شہرہ دور دور تک پھیلنے لگا ان کاحلقہ کافی وسیع تھا اس لیے جلد ہی ان کا شمار استاد شعراء میں کیا جانے لگا، 1898ء میں تلاش معاش کے سلسلے میں ممبئی گئے،وہاں انہوں نے متعدد ڈارامے لکھے جو تھریٹکل کمپنیوں نے دکھائے ان میں سے چند کافی مقبول بھی ہوئے لیکن زیادہ کامیابی نہ مل سکی اس لیے ناچار دہلی واپس آگئے ،اگست 1899ء میں ایک ماہانہ رسالہ " پنجہ نگارین " کے نام سے جاری کیا جس میں وہ اپنے حلقہ تلامذہ کی غزلیں شائع کرتے تھے،1900ء میں حیدرآباد کا سفر کیا اور داغ دہلوی کے سامنے زانوئےتلمذ تہ کیا،یہاں مہاراجہ کشن پرشاد کے حلقہ احباب میں شامل ہوگئے،1901ء سے 1903ء تک راجہ امانت دنت کی سرکار میں ملازم بھی رہے، 1902ء میں " آہ پنڈت رتن ناتھ سرشار" کے عنوان سے ان کی وفات پر ایک مضمون لکھا، مہاراجہ کشن پرشاد اور راجہ امانت دنت نے ان کو خوب نوازا ، 1904ء میں منشی غلام محمد امرتسر کے اخبار " وکیل " سے منسلک ہوگئے،مولانا آزاد اس اخبار کا نثری حصہ سنبھالتے اور آغا شاعر نظم کا حصہ دیکھتے تھے لیکن بدقسمتی سے پہلے ہی سال مولانا آزاد کی والدہ کا انتقال ہوگیا اس لیے وہ کلکتہ چلے گئے اور آغا واپس لاہور روانہ گئے، ان کے مضامین اور غزلیں 'مخزن ' میں شائع ہوتے تھے، لاہور میں علامہ اقبال اور آغا انارکلی کے علاقے میں ایک ہی مکان میں رہتے تھے،علامہ اقبال نے بھی ان سے علمی استفادہ کیا ،انہوں نے لاہور میں دوران قیام ' آفتاب ' نامی رسالہ جاری کیا،اس کے بعد کلکتہ آگئے، یہاں ایرانی سفیر مرزاشجاعت علی بیگ نے انھیں اپنے دربار سے وابستہ کرلیا وہ 1907ء سے 1908ء تک ان کی مصاحبت میں رہے ،اسی دوران انہوں نے شاہ ایران مظفر الدین شاہ کی مدح میں ایک قصیدہ لکھ کر بھیجا، شاہ نے خوش ہوکر 'افسر الشعراء'کے خطاب سے نوازا، راجا رانا بھوانی سنگھ والی جھلاواڑ (راجپوتانہ) کی فرمائش پر بحیثیت درباری شاعر ان کے دربار سے وابستہ ہوگئے ، والی جھلاواڑ مطالعہ کےشوقین اور شعر وسخن کا بھی ذوق رکھتے تھے،انہیں کے کہنے پر انہوں نے 'رباعیات خیام ' کی فصیح ٹکسالی اردو زبان میں ترجمہ کیا ، جو بعد میں ,,خمکدہ خیام ,, کے نام سے سرعلی نواز خان بہادر میر آف خیر پور (سندھ) کے دست کرم سے 1932ء میں شائع ہوئی، یہ والی جھلاواڑ کے یہاں دس سال تک رہے بالآخر وہاں سے ایک بار پھر لاہور پہونچے اور دوبارہ رسالہ 'آفتاب ' جاری کیا،ادارت کی ذمہ داری اپنے شاگرد دیوان شرر کے سپرد کی، یہاں انہوں نے علامہ تاجور کے مکتبہ اور فیروزسنز ناشر کے لئے نثر میں کہی کتابیں تخلیق کیں جن میں ,, ہمارا آسمان ,, بلبلان فارس ,, روح نغمہ ,, گل صد برگ ,, شامل ہیں ،عمر کے آخری مرحلے میں میں ان کے مراسم نواب میر علی نواز خان ٹالپور والی خیرپور سندھ سے ہوگئے تھے نواب علم دوست اور فکر سخن کے ذوق کے ساتھ ناز تخلص بھی فرماتے تھے،نواب اپنے کلام پر اصلاح بھی لیا کرتے تھے.
آغا شاعر قزلباش بوقلمونی شخصیت کے مالک تھے،انہیں نظم و نثر دونوں پر یکساں قدرت حاصل تھی،انہوں نے شاعری کے علاوہ ڈرامہ نگاری،ناول نگاری،ترجمہ نگاری اور صحافت میں بھی اپنے جوہر دکھائے اور عوام وخواص دونوں کو متاثر کیا،وہ گوناگوں صلاحیتوں کے مالک تھے،شاعری میں جملہ اصناف سخن پر قادر تھے،شاعرانہ اعتبار سے غزل گو تھے اس کے باوجود انہوں نے نظم ،مرثیہ،قصیدہ،رباعی پر بھی طبع آزمائی کی اور اپنے منظوم ترجمے میں اپنے شاعرانہ جوہر دکھائے،انہوں نے نہ صرف دبستان داغ کی خدمت کی بلکہ جدید شاعری کی راہوں کو بھی روشن کیا،ان کے پورے کلام میں داغ کے گہرے اثرات نمایاں ہیں،انہوں داغ کی زمینوں پر بھی شاعری کی ،ان کی شاعری میں قدیم وجدید اسلوب کا بڑا حسین امتزاج ملتا ہے،انہوں نے مختلف موضوعات پر نظمیں کہیں جن میں جدید شاعری کی تحریک کے اثرات نمایاں ہیں،ان کی نظمیں ان کے مشاہدات واحساسات کی صحیح ترجمان اور عکاس ہیں،موضوعات کے اعتبار سے ان کا دائرہ بہت وسیع ہے،ان کی بیانیہ نظمیں اپنے اندر ایک تجربہ رکھتی ہیں،ان کے شاعرانہ انداز بیان کی تشکیل ،مشاہدے کی قوت،احساس کی شدت،جذبہ کی جدت اور تخیل کی رفعت جابجا ملتی ہے ،شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی لکھتے ہیں " آپ صرف ہماری قدیم شاعری کا بہترین نمونہ نہیں بلکہ ہماری قدیم تہذیب وشرافت اور ہماری قدیم افتاد مزاج کے بھی علم بردار ہیں "، ان کی شاعری میں خلوص بیان،دلکش طرزادا ،سادہ بیانی،عام فہم الفاظ کا انتخاب،روزمرہ،ہندی تراکیب کا بناؤ سنگھار میں ان کا امتیازی پہلو نمایاں ہے، ان کی شاعری دبستانِ دہلی اور دبستانِ داغ کا حسین سنگم تھی،انہوں ,,خمکدہ خیام ,,کے منظوم ترجمے میں اپنی جدت طرازی اور نظم پر قادرالکلامی کا ثبوت دیا ہے ،انہوں فارسی الفاط کے اصل مفہوم کواور موضوع روح کو بلیغ انداز میں اردو کے قالب میں ایسے ڈھالا ہے جس سے یہ ترجمہ سب سے منفرد اور موثر بن گیا، ان کی شاعری میں روایاتی تصور میں بڑی جاذبیت ہے ،ان کی غزلوں میں روایتی عشق ومحبت ،واردات قلبی،غم جاناں اور غم دوراں کی پرتکلف فضا ملتی ہے،انہوں نے اپنے زور بیان اور کمال فن سے غزل میں ایک روپ ورنگ بھر دیا جو ان کو کلاسیکی شاعری میں ممتاز بناتی ہے، ان کی مرثیہ نگاری کا انداز بھی سب سے جدا گانہ ہے ،ان کے مرثیوں میں ڈرامائی کیفیت پائی جاتی ہے ،ان کے مرثیے میں شستگی،روزمرہ کی صفائی،محاورہ بندی،سلاست وروانی ہے،ان کے مرثیوں میں متانت،سادگی اور پرکاری نظر آتی ہے،انہوں نے مرثیوں کے علاوہ سلام بھی کہے ، مرثیہ اور سلام جیسی اصناف پر بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھی،انہوں نے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ بھی کیا جس کو علمائے کرام نے بھی پسند کیا اور خراج تحسین بھی پیش کیا،ضیاءالدین برنی اسی تعلق سے آغا شاعر کی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ " شیعہ میرے ترجمہ کو درخوراعتنانہیں سمجھتے وہ کہتے ہیں کہ یہ منظوم ترجمہ ایک سنی عالم شاہ ولی اللہ کے ترجمہ پر مبنی ہے اور سنی اس لئے اسے قابل توجہ قرار نہیں دیتے کہ مترجم شیعہ ہے بہرحال میری تو جنت بھی گئی اور دوزخ بھی"،بقول برنی وہ اپنی اس عظیم الشان محنت اکارت جانے کے تخیل سے بہت متفکر رہتے تھے.
آغاشاعر نے صحافت،ناول نگاری،ڈرامہ نگاری میں اپنے نثری جوہر دکھائے،ان کے ناول اپنے رومان کے دلکش آغاز اور فطری انجام،لطیف وبلیغ کنایوں اور نفسیاتی اشاروں،مرقع کشی،واقفیت نگاری،ڈرامائی انداز بیان، کرداروں کا ارتقاء اور پر تاثیر مکالموں،اعلی نثری انشاپردازی کے باعث اردو ادب کا ایک نادر شاہکار ہیں، ان کی نثر نگاری دلکش اور معتدل ہے، الفاظ سلیس اور رواں استعمال کرتے ہیں، دلی کی ٹکسالی زبان کا استعمال انہیں اپنے معاصرین میں بھی ممتاز بناتا ہے، ان کی نثری تخلیق میں پاکیزگی ،شستگی اور رنگینی ہے، روزمرہ،محاوروں کا برمحل استعمال ان کی زبان دانی خصوصاً بیگماتی زبان پر بڑی قدرت ہونے کا ثبوت ہے.
آخری ایام بڑی عسرت اور طویل علالت میں گزرا، ان کی طبیعت عبادت کی طرف راغب ہوگئی تھی،اولاد ابھی کم سن تھی ،ان کا گذربسر مہاراجہ کشن پرشاد اور والی خیر پور(سندھ ) کے وظیفہ سے ہوتا تھا.
افسر الشعراء آغاشاعر قزلباش 12 مارچ 1940ءکو طویل علالت کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوئے ،تدفین صفدرجنگ کے نزدیک درگاہ شاہ مرداں میں ہوئی.
آغا شاعر کی تخلیقات :-
1. جہاندار بلقیس
2. ناہید
3. دامن حریم
4. آویزہ گوش
5. پر پرواز
6. خمارستان
7. ہمارا آسمان
8. حور عرب
9. گلگونہ شہادت
11. خمکدہ خیام
10. ارمان
11. انورورضیہ
12. قتل نظیر
13. ہیرے کی کہنی
14. طلسمی بدلہ
15. شعلہ جوالہ
16. پرستان
17. نقلی تاجدار
18. دیوان شاعر
19. سلک مروارید
20. پہلے زمانے کی دلی
لاساقیا ساغر یہ جہاں ھے ظُلمات
جُز چہرہء پُرنُور کہاں آب حیات
یہ جان و جہان اور جہاں کا سب کُچھ
مقصُود تُوئ ھے بر مُحمّدﷺ صلوات
گر مے پیے ہم شغل بنا صاحبِ ہوش
یا چاند سی صورت کوئی ہنس مکھ، گل پوش
کثرت نہ ہو، علت نہ لگا، فاش نہ پی
تھوڑی سی، کبھی کبھی، چھپا چھپا کر، خاموش
ہے یہی رنگ سخن تو شاعر شیریں زبان
تو بھی اک دن طوطی ہندوستان ہوجائیگا
اب دل کی خیر ہے نہ جگر کا کچھ اعتبار
میں بھی کسی نیم نگاہی میں آگیا
مسکن کوئی قبر سے بہتر نہیں ملتا
آرام کہیں گھر کے برابر نہیں ملتا
جب کہا محشر میں سچا چاہنے والا ہے کون؟
اف رے شوخی مجھ کو انگلی سے بتاکر رہ گیا
دیکھا تو سادگی میں بھی لاکھوں بناؤ ہیں
جب سے لگائی ہے آپ نے یہ بانکپن کی شاخ
زمیں کی گود میں جاکر کفن کیا رنگ لائے گا
مری بے برگیاں ہنستی ہیں میرے سازوسامان پر
سوزِفرقت نہ بجھے گا کسی پہلو دل میں
کاش آنکھوں سے برسنے لگیں آنسو دل میں
اب نہیں کٹتیں یہ راتیں دل بہت بے چین ہے
میرے گھر بھی آؤ اک دن مہ لقا برسات میں
یوں تو شکوہ بھی ہمیں آئینہ روآتا ہے
ہونٹ سل جاتے ہیں جب سامنے تو آتا ہے
ایک ہی درجے میں شاہ وگدا
خاک میں دونوں کو یکجا دیکھ لے
دنیا میں کوئی دوست کسی کا نہیں ہوتا
اپنا بھی برے وقت میں اپنا نہیں ہوتا
ملنا نہ ملنا یہ تو مقدر کی بات ہے
تم خوش رہو رہو مرے پیارے جہاں کہیں
عریاں ہی رہے لاش غریب الوطنی میں
دھبے مرے عصیاں کے نہ آئیں کفنی میں
خوب بلبل کو سکھایا نالۂ مستانہ وار
خوب غنچے کو سمجھ دی مسکرانے کے لیے
کیا خبر تھی رازِ دل اپنا عیاں ہو جائے گا
کیا خبر تھی آہ کا شعلہ زباں ہو جائے گا
پوچھتے کیا ہو تمناؤں کی حالت کیا ہے
سانس کے ساتھ اب اشکوں میں لہو آتا ہے
جان دیتے ہی بنی عشق کے دیوانے سے
شمع کا حال نہ دیکھا گیا پروانے سے
مرے کریم عنایت سے تیری کیا نہ ملا
گناہ کر کے بھی بے مزد آب و دانہ ملا
لو ہم بتائیں غنچہ و گل میں ہے فرق کیا
اک بات ہے کہی ہوئی اک بے کہی ہوئی
کلیجے میں ہزاروں داغ دل میں حسرتیں لاکھوں
کمائی لے چلا ہوں ساتھ اپنے زندگی بھر کی
تم کہاں وصل کہاں وصل کی امید کہاں
دل کے بہکانے کو اک بات بنا رکھی ہے
پہلے اس میں اک ادا تھی ناز تھا انداز تھا
روٹھنا اب تو تری عادت میں شامل ہو گیا
ابرو نہ سنوارا کرو کٹ جائے گی انگلی
نادان ہو تلوار سے کھیلا نہیں کرتے
پامال کر کے پوچھتے ہیں کس ادا سے وہ
اس دل میں آگ تھی مرے تلوے جھلس گئے
اک بات کہیں تم سے خفا تو نہیں ہو گے
پہلو میں ہمارے دلِ مضطر نہیں ملتا
ہمیں ہیں موجب بابِ فصاحت حضرتِ شاعرؔ
زمانہ سیکھتا ہے ہم سے ہم وہ دلی والے ہیں
اِدھر دِل کے جانے کا ماتَم ہُوا
مُبارک سلامَت اُدھر ہو گئی
کس طرح جوانی میں چلوں راہ پہ ناصح
یہ عمر ہی ایسی ہے سجھائی نہیں دیتا
پہلے اس میں اک ادا تھی ناز تھا انداز تھا
روٹھنا اب تو تری عادت میں شامل ہو گیا
بڑے سیدھے سادھے بڑے بھولے بھالے
کوئی دیکھے اس وقت چہرا تمہارا
یہ کیسے بال کھولے آئے کیوں صورت بنی غم کی
تمہارے دشمنوں کو کیا پڑی تھی میرے ماتم کی
کلیجے میں ہزاروں داغ دل میں حسرتیں لاکھوں
کمائی لے چلا ہوں ساتھ اپنے زندگی بھر کی
اس لئے کہتے تھے دیکھا منہ لگانے کا مزہ
آئینہ اب آپ کا مد مقابل ہو گیا
اپنا دل اپنی جان کا دشمن
غیر کا اعتبار کون کرے
ہائے کیا چیز تھیں وہ مَست نگاہیں شاعرؔ
جُھومتا جَھامتا نکلا ہُوں پَری خانے سے
اقرار پہ بھی میری طبیعت نہیں جمتی
وہ لطف ملا ہے تری پیماں شکنی میں
ہمارا بس چلے تو ہم کلیجے میں تمہیں رکھ لیں
مگر مجبور ہے، چلتی نہیں اپنی مقدر پر
رونے سے جو بھڑاس تھی دل کی نکل گئی
آنسو بہائے چار طبیعت سنبھل گئی
پہرا بٹھا دیا ہے یہ قیدِ حیات نے
سایہ بھی ساتھ ساتھ ہے جاؤں جہاں کہیں
سینے سے ڈھل رہا ہے دوپٹہ جو بار بار
یہ تو بتا اٹھے گی قیامت یہیں سے کیا
اے شمع! ہم سے سوزِ محبت کے ضبط سیکھ
کمبخت، ایک رات میں ساری پگھل گئی
حشر میں انصاف ہو گا ، بس یہی سُنتے رہو
کچھ یہاں ہو تا رہا ہے ، کچھ وہاں ہو جائیگا