اتنی پِلا کہِیں نہ ہمارا جواب ہو
جِس کا نشہ ہی کم نہ ہو ایسی شراب ہو
کِس طرح چُوس لُوں لبِ میگُونِ یار کو
افسوس جِس میں یار کی جُہوٹی شراب ہو
اِک اِک کے منھ کو دیکھتی ہیں حسرتیں مِری
یوں نامراد بھی نہ کسی کا شباب ہو
جِس رات میکشی کرے تُو میری بزم میں
اُس رات کے لیے قدحِ آفتاب ہو
شاعرؔ کروڑ زندگیاں مِٹ گئیں یہاں
کب دیکھیے خراب جہانِ خراب ہو