Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

تعارف

شمیم حنفی

 

شمیم حنفی  کا اصلی نام محمد شمیم تھا ،ان کی پیدائش 17 نومبر 1938ء کو سلطانپور کے ایک علمی خانوادے  میں ہوئی ، ان کے والد محمد یسین وکالت جیسے خشک پیشے سے وابستہ ہونے کے باوجود ادب نواز تھے ، پروفیسر آل احمد سرور سے دوستانہ مراسم تھے ،ان کی ابتدائی تعلیم سید معین الدین قادری کی زیر سرپرستی ہوئی جو کہ فارسی ، اردو ، عربی اور انگریزی کے عالم تھے ، انہوں نے  مدھوسودن ودیالیہ سلطانپور سے انٹر میڈیٹ پاس کیا ،مزید تعلیم کیلئے آلہ آباد یونیورسٹی میں داخلہ لیا ،گریجویشن پاس کرنے کے بعد 1960ء میں اردو سے اور 1962ء میں تاریخ سے ماسٹرز کیا ، ڈی فل انہوں نے پروفیسر سید احتشام حسین کی زیر نگرانی مکمل کیا ،ان کی شاگردی میں ان کا تنقیدی شعور پروان چڑھا ،الہ آباد یونیورسٹی میں دوران تعلیم ان کے اساتذہ فراق گورکھپوری ،ڈاکٹر اعجاز حسین ، پروفیسر ایس ڈی دیب وغیرہ کی صحبت میں ان کے اندر نکھار پیدا ہوا، الہ آباد یونیورسٹی سے ڈی فل کرنے کے بعد 1965ء میں بطور لکچرر اندور یونیورسٹی  میں ان کی تقرری ہوئی ، بعد ازاں اردو، عربی وفارسی کے صدر شعبہ بنادئے گئے ، 1969ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بحیثیت لکچرر  تقرری ہوئی ، یہاں انہوں نے پروفیسر آل احمد سرور کے زیر نگرانی ڈی لٹ کی ڈگری مکمل کی ، اسی سال یعنی 1976ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں بحیثیت اردو لکچرر کے ان کی تقرری ہوئی ، ڈی لٹ میں لکھا گیا  مقالہ دو کتابی جلدوں میں شائع ہوا " جدیدیت کے فلسفیانہ اساس " اور " نئی شعری روایت " جس سے  ان کی پہچان  نقاد کے شہسواروں میں ہونے لگی ، چند ماہ میں ہی اپنی قابلیت سے ریڈر ہوگئے، 1984ء میں پروفیسر بنادئے گئے ،کئی بار شعبہ اردو کے صدر بھی رہے ، شعبہ علوم فنون و لطیفہ ولسانیات کے ڈین بھی رہے ، اردو ایڈوانس کورس کے ڈائریکٹر بھی رہے، 2007 ء میں سبکدوشی  کے بعد اپنے علمی اودبی کاموں میں  مصروف رہے ، 2007 ء میں ہی جامعہ ملیہ  نے ان کو بطور پروفیسر آف ایمریٹس  منسلک کرلیا اور تاحیات  اس اعزازی منصب پر فائز رہے ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کی میگزین " جامعہ " کے مدیر بھی رہے ،آپ ہندی ادبی دنیامیں بھی کافی مقبول تھے ،ریختہ سے بھی وابستگی تھی ۔

 

شمیم حنفی بلند پایۂ نقاد کے علاوہ  شاعر ، مترجم ،ناول نگار،ادبی صحافی،ڈرامہ نویس اور معلم  تھے ،ان کا تنقیدی  و تدریسی سفر چار دہائیوں سے زائد عرصے پہ محیط ہے ، بحیثیت نقاد انہوں نے خود کو ادب کے کسی صنف یا  ہئیت میں قید نہیں کیا  بلکہ ان کا تنقیدی ذہن مسلسل  جدیدیت کے سیاق میں  گردش کرتا رہا  اسی ضمن میں خود رقم طراز ہیں " جدیدیت کی روایت اردو میں  ابھی تشکیل کے مراحل سے گزر رہی ہے ،البتہ گزشتہ چند برسوں میں اس نے ایک مستحکم  تخلیقی رویے کی شکل  اختیار کرلی ہے جس کے اسباب تہذیبی بھی ہیں ،معاشرتی بھی اور فکری و نفسیاتی بھی ، جدیدیت تحریک یا مکتبہ فکر نہیں ہے، دونوں صورتوں میں کسی  موسس  یا قائد کا وجود ایک شرط بن جاتا ہے " آگے لکھتے ہیں " بیسویں صدی کے  مخصوص سیاسی ،تہذیبی ،اقتصادی اور جذباتی ماحول نے زندگی کی طرف چند تازہ کار زاویہ ہائے کی ترتیب وترویج میں حصہ لیا اور تاریخ کے خود کار  عمل کے نتیجے میں فکر وفن کے ایسے معیار بھی  سامنے آئے  جن کی نوعیت بھی اردو کی عام شعری روایت سے مختلف تھی، تجربوں کا خوف ایک فطری امر ہے کیونکہ بیشتر صورتوں میں انہیں قبول کر نے کا مطلب  مسلمہ اقدار ، روایات ، ذہنی وجذباتی تحفظات سے محرومی  یا ان کی نفی ہوتا ہے ،نسلی اور نظریاتی تعصبات کی مجبوریاں اس کے علاوہ ہیں ، یہی وجہ ہے کہ جدیدیت کے میلان کو بھی اکثر علمی وادبی حلقوں میں شبہے کی نظر سے دیکھا گیا "،ان کی تنقیدی فکر ، ذوق کی اعلی ترین منزل پر نہ صرف فائز نظر آتی ہے بلکہ وہ معاصر  تنقیدکو بھی اس مقام پر دیکھنا چاہتی ہیں ، تھیوریز اور نظریات سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے فن پارے کو وہ جس سیاق میں دیکھنے  پر زور دیتے ہیں وہ ایک مابعد جدید نقطۂ نظر ہے ، وہ زبان واسلوب سے زیادہ  فکری اور حسی مسئلے سے سروکار رکھتے ہیں ، وہ تہذیب کو عام انسانی زندگی کے حوالے سے  دیکھتے ہیں اسی کے ساتھ ہی انفرادی احساسات کو بھی تہذیبی اقدار کا حصہ بتاتے ہیں ، انہوں نے انیسویں صدی  کے ادبی اور تہذیبی مسائل پر کئی مضامین  تحریر کئے ، ان کی تحریروں کا مزاج ترقی پسند تنقید سے قریب ہے ،انہوں نے تنقید اور تخلیقی سرگرمیوں میں وسعت ذہنی اور کشادہ نظری پر زور دیا ، اپنے تنقیدی مضامین میں گفتگو کا انداز اختیار کیا ، ان کی تنقیدی زبان اور لہجہ دونوں  بے حد شائستہ  اور پروقار ہے ۔

شمیم حنفی کی شاعری میں بھی سبھی رنگ موجود ہیں جو یہاں بھی ان کوانفرادیت عطا کر تی ہے ، ماضی کی عظمت ،پرانی قدروں کی اہمیت اور ایام    گزشتہ سے ایک خاص رشتہ ان کی غزلوں میں ملتا ہے ،تنہائی ، ذات کا عرفان، سماج و معاشرہ سے گہرا ربط اور خود کا وجود ، ان کی غزلیں بھی انہیں معاملات اور کیفیات کا اظہار کرتی ہیں ، بسا اوقات ان کی غزلوں میں خود کلامی کا لہجہ احساس  گھلا دینے والی کیفیت کو پیداکرتا ہے ، شام کا کرب  ،اداسی ، مایوسی اور خاموشی کا تصور  رشتے میں ہولناکی کا ذکر کرتے ہوئے جسم وروح کی کشمکش ، شام کے کرب کے ساتھ ان کی غزلوں میں اندھیرے پن کے مرقعے بہت صاف ہیں ، ان کی شاعری  کی زبان عام فہم ،سلیس و رواں ہے، ان کا شعری  لب ولہجہ اور اسلوب زیب غوری سے کافی مماثلت رکھتا ہے اسی تعلق سے سید ثاقب فریدی  نے جب سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ" زیب بہت اچھے شاعر تھے بظاہر میرا اور ان کا موازنہ نہیں کرنا چاہئے ،وہ بہت اچھے شاعر تھے مجھے ان کا کلام پسند ہے ، لیکن ایک بات جوان میں مجھ میں مشترک ہے وہ یہ ہے کہ مصوری  کی اصطلاحوں سے ان کو بھی بہت دلچسپی تھی اور مجھے بھی ، مصوری کا جو پورا عمل ہوتا ہے ، مجھے بھی اس سے بہت لگاؤ ہے ،بہت سے تجربوں کو میں نے رنگوں کی شکل میں دیکھا ہے وہ زیب کے یہاں بھی ہے "۔

شمیم حنفی کے ڈرامے  بھی جدید طرز اسلوب اور جدیدیت پر مبنی ہیں ، وہ حب الوطنی ،معاشی ،معاشرتی اور نفسیاتی  موضوعات پر مشتمل ہیں، انہوں نے اپنے ڈراموں میں طنزیہ مکالمات کو عوام کو بیدار کرنے کا وسیلہ بنایا اور اس میں کامیاب بھی نظر آئے ،ان کے ریڈیائی ڈرامے  کی روایات اہم مقام رکھتی ہیں ،ان کے تحریر کردہ ڈرامے شامل نصاب بھی ہیں اور اسٹیج بھی ہوئے ،پروفیسر محمد کاظم لکھتے ہیں " شمیم حنفی کے ڈراموں  میں ہمارا سماج ،ہمارا ادب اور عوام صاف طور پر دیکھے جا سکتے ہیں " انہوں نے ادبی صحافتی کالم نویسی اور ترجمہ نگاری میں  بھی اپنی تحریروں  سے ادبی معاشرہ پر  اپنا سکہ جمایا ،انہوں  اقبالیات پر بھی اپنی تحقیقی کام کا گراں قدر سرمایہ چھوڑا  جس نے اقبالیات  کے باب میں اضافہ کیا ۔ 

شمیم حنفی کی اردو ادب کی خدمات کیلئے  انہیں ,,غالب ایوارڈ ,, مولانا ابوالکلام آزاد ایوارڈ ,  پرویز شاہدی ایوارڈ ,, دہلی اردو اکاڈمی ایوارڈ ,,  اس کے علاوہ 2015ء میں انہیں جنین گرانند النکرن  کا پہلا جنن پیٹھ ایوارڈ ملا ، جنوری 2021ء  میں قطر کی ادبی  تنظیم ,, مجلس فروغ اردوادب ,, نے ان کو اردوادب کے فروغ کیلئے بین الاقوامی اعزاز سے سرفراز کیا گیا.

 

 شمیم حنفی کی چنندہ تخلیقات

 

1.   نئی شعری روایت

2.   جدیدیت کی فلسفیانہ اساس

3.   غزل کا نیا منظر نامہ

4.   آزادی کے بعد دہلی میں اردو خاکہ

5.   منٹو حقیقت سے افسانے تک

6.   قاری سے مکالمہ

7.   غالب کی تخلیقی حسّیت

8.   اردو کلچر اور تقسیم کی روایت

9.   اقبال  کی حرف تمنا

10.  تاریخ ،تہذیب اور تخلیقی تجربہ

11. خیال کی مسافت

12. مٹی کا بلاوہ

13.  بازار میں نیند

14.   آخری پہر تک

 

لکڑہارے تمہارے کھیل اب اچھے نہیں لگتے

ہمیں تو یہ تماشے سب کے سب اچھے نہیں لگتے


اجالے میں ہمیں سورج بہت اچھا نہیں لگتا

ستارے بھی سر دامان شب اچھے نہیں لگتے


کتاب پڑھتے رہے اور اداس ہوتے رہے

عجیب شخص تھا جس کے عذاب ڈھوتے رہے