Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس


شمیم حنفی

نئی شعری روایت ص 36/37

محض خیالات کو منظوم کردینا شاعری نہیں بلکہ نقالی ہے ،جو افکار اقبال سے پہلے  نثر کا ورثہ بن چکے تھے انہیں اوزان ، بحور میں صرف پابند کردینا غیر ضروری بھی تھا ،اقبال کی فکر کاامتیاز یہ ہے کہ شعر میں ڈھل کر وہ تخلیقی فکر بن گئی ،جہاں ایسا نہیں ہوسکا ( علی الخصوص ان کی شاعری کے ابتدائی  ادوار میں ) اقبال کا تعقل اور تصور حسن ان کی شخصیت میں باہم دگر پیوست ہوکر ان کی نظموں کو اکائیوں کو شکل نہیں دے سکا اس لئے جواب شکوہ ،اسرار خودی اور رموز بے خودی کا حسن ایسے مقاصد سے گراں بار دکھائی دیتا ہے جو ان سے باہر ہے ،ان میں پیغام رسانی کی لَے اتنی تیز ہے کہ شعر کا داخل آہنگ منتشر ہوگیا ،اس کے برعکس اقبال کا تخلیقی وفور جب مقاصد پر غالب آجاتا ہے تو مقاصد خارج سے شعر پر اثرانداز ہونے کے بجائے اس کی تہہ سے نمو پذیر ہوتے ہیں ، ذوق و شوق،مسجد قرطبہ ،مکالمۂ جبرئل وابلیس ،فرمان خدا ،فرشتوں کے نام اور ایسی نئی نظموں میں مقاصد ان کی سالمیت ہی کا جزو ہیں ، ان میں زبان فکر کے اظہار کے ذریعہ نہیں اس کا حصہ ہے اور اس اعتبار سے جدیدیت کی شعریات سے قریب تر ۔ لیکن اقبال ایک ترقی یافتہ فنی بصیرت سے بہرہ ور ہونے کے باوجود فن کے جس تصور کو مستحسن سمجھتے تھے اس کی سطح انیسویں صدی کی اصلاحی شاعری اور بیسویں صدی کی ترقی پسند  شاعری سے بلند تر نہیں ہے ،شاعر کا مقصد وہ اپنی قوم تک " مفید مطلب خیالات پہچانا " اور " ایک جدید معاشرے کی تعمیر میں مدد دینا" تصور کرتے تھے اور اس تصور کے تحت خود کو "شاعر محض " سمجھے جانے کے خلاف تھے۔

 

o    نئی شعری روایت ص 36/37