سید صباح الدین عبد الرحمن 1911ء میں دیسنہ ضلع پٹنہ بہار میں پیدا ہوئے، پیدائش سے قبل ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا ابھی سات برس کی عمر کے ہی ہوئے تھے کہ والدہ بھی داغ مفارقت دے گئیں،خاندان والوں نے پرورش میں کوئی کمی نہیں کی، ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب سے حاصل کی، نالندہ کالج سے میٹرک پاس کیا، پٹنہ یونیورسٹی سے گریجویشن میں کامیابی حاصل کی،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ایڈ کیا، پٹنہ یونیورسٹی سے اردو و فارسی سے ماسٹرز کیا، سید سلیمان ندوی جیسے جوہری نے ہیرے کی پرکھ کی اور 1935ء میں دارالمصنفین بلالیا ، وہیں پر تحقیق و تدوین کے کاموں سے عملی زندگی کی شروعات کی ، سید سلیمان ندوی سے آپ کو بہت قرب حاصل تھا اور وہ بھی آپ کو بہت عزیز رکھتے تھے، سید صاحب نے آپ کو تاریخ ہند کی تدوین کی ذمہ داری سونپی تھی جسے آپ نے بحسن خوبی انجام دیا ، ایک خط میں سید صاحب لکھتے ہیں " اللہ تعالی تم کو صحت وعافیت کے ساتھ تا دیر دارالمصنفین کی خدمت کا موقع دے،اب تم سے اور برادرم شاہ معین الدین ہی سے ساری امیدیں وابستہ ہیں، تم لوگوں کو دارالمصنفین کا چراغ ہر طرح روشن رکھنا ہے،اور ہاں بھائی اب پورے عزائم کے ساتھ تاریخ ہند کے سلسلے کو بھی جاری رکھو، اللہ تبارک وتعالی پورا فرمائیں" علی گڑھ میں دوران تعلیم 1933ء میں آپ لاہور گئے اور علامہ اقبال سے ملاقات کی،آپ “تحقیقات اسلامی “ کی دعوت پر اکتوبر 1976ء کو “یوم اقبال “ کے موقع پر پاکستان تشریف لے گئے اور ,,موجودہ ہندوستان میں اقبال ,, کے عنوان سے ایک مقالہ بھی پڑھا ، اقبال کے فکر وفلسفہ پر مقالات بھی لکھے جن میں ایک مقالہ " کیا علامہ اقبال یورپ کے فلسفہ سے متاثر تھے" بہت اہم ہے اس سے ان کی اقبال شناسی کا پتہ چلتا ہے، فرزنداقبال جسٹس جاوید اقبال نے جب علامہ اقبال کی سوانح “زندہ رود “لکھی تو آپ نے اس کے لئے تبصرہ بھی لکھا، 1974ء میں شاہ معین الدین ندوی کی وفات کے بعد آپ دارالمصنفین کے ناظم مقرر ہوئے اور اس کے علاوہ رسالہ ,,معارف ,, کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ۔
سید صباح الدین عبدالرحمن ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے آپ مورخ، محقق، مترجم اور ماہر اقبالیات شمار کئے جاتے ہیں،بحیثیت مورخ آپ تاریخی بصیرت اور تہذیب وتمدن کے مطالعہ کے ساتھ امت مسلمہ کا درد بھی رکھتے تھے ، آپ مسلمانوں کی یک جہتی اور یگانگت کے آرزومند تھے ،آپ تعمیری ذہن کے ساتھ مثبت اقدام کے حامی تھے ، آپ کا یہ رنگ آپ کی تمام تصانیف میں نظر آتا ہے، آپ کی نگاہ ہمیشہ ماضی کے روشن پہلوؤں پر رہتی ہے ۔۔۔ایسا نہیں کہ آپ تاریک پہلوؤں سے چشم پوشی کرتے ہیں بلکہ روشن پہلوؤوں کی طرف اس لئے زیادہ راغب رہتے ہیں تاکہ ان کی مدد سے حال کو سنوارنے میں مدد لے سکیں اور مستقبل کی راہیں ہموار کرسکیں،آپ لکھتے ہیں کہ " مورخ کی نیت صحیح ہو تو موضوع کتنا متنازع فیہ ہو ۔۔۔اس کے روشن پہلو دکھانا کچھ مشکل کام نہیں،کون سی حکومت ہےجو بے داغ رہی ہے،لیکن اس کے صرف داغدار پہلوؤں کو پیش کیا جائے تو اس کے اچھے پہلو آسانی سے نظر انداز ہوجاتے ہیں "آپ کی تاریخ نگاری کا بنیادی پہلو ہندوستان کی تمدنی زندگی میں مختلف اقوام وملل کے ملے جلے تجربات اجاگر کرنا ہے، آپ کی زیادہ ترکتابیں ہندوستان میں عہد وسطی سے متعلق ہیں، ،تاریخ ہند پر آپ کی نگاہ بہت گہری تھی ، آپ نے ہندوستان عہد وسطی کی تاریخ کا بالاستیعاب مطالعہ کیا تھا ،اس لیے آپ نے اس دور کے بادشاہوں کی سیاسی،تمدنی،معاشرتی،فوجی کارناموں پر تفصیلی روشنی ڈالی ، آپ کے نزدیک 'رزم ' کی تاریخ نگاری نفرت ،دوریاں اور کشمکش کو پروان چڑھاتی ہے مختلف اقوام وملل اور گروہوں کے درمیان فاصلے اور تصادم کو بڑھاتی ہے ،اس لئے آپ نے پورے سلسلہ تدوین تاریخ ہند کو رزم کے بجائے بزم سے سجایا،لہذا بحیثیت مورخ آپ کی انفرادیت 'بزمیہ ' تاریخ نگاری کی آرائش سے ہے، آپ کی جستجو کا مرکز وہ تمدنی جلوے ہیں،جن میں لطافت ونفاست کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے،آپ وطن کی محبت اور مذہبی رواداری کے واقعات اور مظاہر کو تاریخ کی روشنی میں آگے لے کر بڑھتے ہیں اور اپنے اس تاریخی شعور کی مدد سے ماضی حال اور مستقبل کو ایک ہی لڑی میں پیرونے کی کوشش کرتے ہیں ، آپ لکھتے ہیں " ان دونوں جلدوں ( بزم مملوکیہ اور بزم تیموریہ ) کی ترتیب کے وقت استادی المحترم علامہ سید سلیمان ندوی کی نصیحت ذہن پر چھائی رہی،کہ ہندوستان کی جو بھی تاریخ لکھی جائے اس کا مقصد ہندوستان کے متفرق اجزاء کو باہم جوڑنا ہو ، توڑنا نہ ہو، حال کو ماضی کی ناگوار تلخی بڑھا کر برباد نہ کیا جائے "آپ کی خصوصیات میں سے ایک خاصیت یہ تھی کہ آپ کسی بھی کتاب کی تدوین کرتے وقت جو مواد جمع کرتے تو اس کے ضمنی موضوعات پر بھی مواد جمع کرتے جاتے اس طرح ایک کتاب کی تیاری میں کئی کتابیں تیار ہوجاتیں،آپ نے رسالہ معارف کے علاوہ دیگر رسالوں کیلئے بھی مضامین لکھے اور کئی انگریزی کتابوں کے ترجمے بھی کئے،آپ کا اسلوب سادہ اور سلیس ہے اور انشاء پردازی سے گریز کیا ہے ، آپ کی تاریخی یا ترجمہ کردہ کتابیں عام فہم زبان وبیان پر مشتمل ہیں.
" ہندوستان عہد وسطی کی ایک جھلک " کی کتاب پر حکومت یوپی نے آپ کو ایک ہزار روپیہ کے نقد انعام سے نوازاتھا ۔
شبلی و سلیمان کا سچا جانشین سید صباح الدین عبدالرحمن 18 نومبر 1987 کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے، نماز جنازہ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ علیہ نے پڑھائی، تدفین علامہ شبلی کے پہلو میں ہوئی.
سید صباح الدین عبدالرحمن کی تالیفات کی فہرست درج ذیل ہے
1. بزم تیمیوریہ
2. بزم مملوکیہ
3. بزم صوفیہ
4. ہندوستان عہد وسطی کی ایک جھلک
5. ہندوستان عہد وسطی کا فوجی نظام
6. ہندوستان کے مسلم حکمرانوں کے عہد کے تمدنی جلوے
7. ہندوستان کے سلاطین علماء مشائخ کے تعلقات پر ایک نظر
8. ہندوستان ،امیر خسرو کی نظر میں
9. ہندوستان کی بزم رفتہ کی سچی کہانیاں
10. عہد مغلیہ، مسلمان اور ہندو مورخین کی نظر میں
11. غالب مدح وقدح کی روشنی میں (دو جلدیں)
12. اسلام اور مستشرقین
13. عربوں کی جہازرانی
14. مضامین عالمگیر
15. خواتین اسلام کی بہادری
16. رسالہ ضیاالدین برنی
17. صلیبی جنگ
18. اسلام میں مذہبی رواداری
19. بزم رفتگاں (دو حصے)