كورونا ويكسين اور علمائے كرام (ایک ہمدردانہ مشورہ) از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى (آكسفورڈ) ادہر چند دنوں سے كورونا ويكسين كے متعلق استفتاء اور افتاء ميں تيزى آ رہى ہے، چونكہ راقم سطور كا تعلق بہى علماء كى اس جماعت سے ہے جس سے اس قسم كے سوالات پوچہے جا رہے ہيں، اس لئے ميرى يہ تحرير دخل در معقولات كے زمرہ ميں نہيں آئے گى، بلكہ اميد ہے كہ اپنى ہى جماعت كا ايك فرد سمجہتے ہوئے علمائے كرام اور مفتيان عظام اس پر سنجيدگى سے غور كريں گے ۔ كورونا ويكسين كى اباحت وحرمت پر كسى قسم كے اظہار خيال سے پہلے ہميں درج ذيل باتيں ذہن ميں ركہنى ہوں گى: 1- جن سا...
امام بخارى اور تاريخ كى بنياد پر حديث كى غلطيوں كى اصلاح از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوی(آكسفورڈ) تمہيد:"حديث تاريخ كى ايك نوع ہے"، اس موضوع كے مختلف پہلوؤں پر ميں نے عربى اور اردو ميں متعدد مضامين لكهے، عالم عرب وعجم كے حديث سے اشتغال ركهنے والے علماء وطلبه كے پيغامات موصول ہوئے كه ان مضامين سے انہيں حديث كى حقيقت سمجهنے ميں مدد ملى، اور يه پته چلا كه متقدمين كا منہج متاخرين سے كيوں ممتاز ہے، اور يہى ان مضامين كى غايت تهى، علم حديث كے جن شائقين كو اس موضوع كى گہرائى ميں جانے كى خواہش ہو وه عربى ميں ميرى كتاب (تمهيد علم ...
بسم اللّه الرحمن الرحيم تمہيد:جب كسى ہندو سے كہا جاتا ہے كه اجودهيا رام كى جائے پيدائش ہے تو اس سرزمين كى محبت وعقيدت سے اس كا دل لبريز ہوجاتا ہے، اور وه وہاں عبادت كے مراسم ادا كرنے كے لئے بيچين ہوجاتا ہے، كيونكه اسے وه ايك مذہبى مسئله سمجهتا ہے، وه يه بهول جاتا ہے كه مذہبى مسئله ہونے سے پہلے يه ايك تاريخى مسئله ہے، يعنى اس كى تحقيق ہونى چاہئے كه كيا اجودهيا سے رام كا تعلق ظاہر كرنے كے مستند تاريخى دلائل موجود ہيں؟قاہره ميں جامع الازہر كے جوار ميں جامع الحسين ہے، جہاں حضرت حسين رضي الله عنه كے سر كا مدفن ہے، شيعه زائرين فرط عقيدت سے اس مصنوعى ...
مسلمان اس دھرتی پر ایک بوجھ ہے ، مسلمان وحشی ہے ، مسلمان دہشت گرد ہے ، مسلمان انتہا پسند ہے ، وہ ترقی یافتہ تہذیب کی پیشانی پر ایک داغ ہے ، وہ دنیا کی سب سے پچھڑی ہوئی قوم ہے ، کاروان زندگی میں وہ پچھلی نشست کا مسافر ہے ، ترقی اور مسلمان دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ، آخر معاصر ترقی یافتہ دنیا میں اس کا کیا اشتراک عمل ہے ؟عجیب زمانہ آگیا ہے کہ اب اندھیرا روشنی سے حساب مانگ رہا ہے جھوٹ سچ کا منھ چڑھا رہا ہے ، جہالت کے اندھیروں میں بھٹکنے والے روشنی کے پیمبر بنے پھرتے ہیں اور اپنے ماضی سے نظریں چرانے والے وقت کا سکندر ہونے کا دم بھرتے ہیںاب انھیں کون بتلائ...
یورپ پر ایک دور ایسا بھی گزرا کہ جس کا تصور کرنا بھی اسوقت محال ہے نشاۃ ثانیہ سے ایک ہزار سال قبل یورپ تہ بتہ تاریکی ہمہ جہت پسماندگی اور مذہبی انتہا پسندی کے عروج پر تھا ، تمام شعبہ حیات میں کلیسا کا زور تھا اس دور جہالت کے کچھ عجیب وغریب واقعات ایسےہیں کہ جنھیں پڑھ کر آپ تعجب میں پڑ جائیں گے اور یقین کرنا مشکل ہوجائے گا کہ کیا یہ وہی یورپ ہے جہاں ایک زمانے میں پانی سے غسل کرنا کفر اور مُسبّب امراض سمجھا جاتا تھا ، ہنگری کے ایک معروف مصنف اور صحافی سنڈور مورائی نے اپنی کتاب , اعترافات برجوازي ، میں لکھا ہے کہ یورپین ناقابل برداشت حد تک بدبودار ہوتے تھ...
ایک محاورہ ہے کہ درخت اپنے پھل سے اور انسان اپنے قول وفعل سے پہچانا جاتا ہے اس لیے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ انسانی ذہن وفکر کے دریچے میں جھانک کر کسی بھی قوم کے تعلیمی ڈھانچے کو دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ زمین میں جیسی تخم ریزی ہوگی کاشت بھی اسی کے مطابق تیار ہوگی دراصل کسی بھی قوم کی ترقی کا اصل راز اس کے بہتر نظام تعلیم وتربیت میں مضمر ہوتا ہے اگر آج دنیا میں مغرب کا غلغلہ اور ہر جگہ اس کا بول بالا ہے تو اس کی پشت پر اس کا بہتر نظام تعلیم وتربیت اور تحقیقاتی اداروں کا قیام ہے ۔ہمارے ملک ہندستان میں آزادی کے بعد پہلی بار 1966 میں کوٹھاری کمیشن ن...
19/نومبر 2020 کی شام حقیقی معنوں میں ایک خاص شام تھی ۔ کورونائی حدود و قیود سے بوجھل ایک طویل مدت گزارنے کے بعد،دوحہ میں اردو زبان و ادب کے شیدائی پہلی بار ایک چھت کے نیچے جمع ہوئے تھے ۔ مطلوبہ جسمانی مسافت اور دیگر احتیاطی تدابیر کی رعایت کرتے ہوئے تقریبا (50) افراد کی شرکت کے ساتھ یہ ایک یادگار اور تاریخی لمحہ تھا۔ اس خوبصورت اور باوقار تقریب کا اہتمام "کاروان اردو قطر" کے جنرل سکریٹری جناب محمد شاہد خاں نے دفنہ میں اپنی رہائشگاہ "شاہد منزل " میں کیا تھا۔ کووڈ 19 کے سبب پوری دنیا میں 2020 کا سال جیسا گزرا ہے اس سے سبھی واقف ہ...
ممکن ہے یہی دل کے ملانے کا سبب ہویہ رُت جو ہمیں ہاتھ ملانے نہیں دیتی !کورونا وائرس سے پہلے جن بیماریوں کو بھی وبا کا درجہ دیا گیا وہ کسی ملک یا خطے تک محدود رہیں اور اس جغرافیائی محدودیت کی بنا پر انکا شکار ہونے والے افراد کی تعداد بھی محدود رہی لہذا انکے نفسیاتی، سماجی اور معاشی اثرات بھی ایک خاص خطے سے آگے نہ بڑھ سکے۔وباؤں کی معلوم اور مُدوّن تاریخ پر نظر ڈالیں تو دنیا کئی بار ان سے نبرد آزما ہوچکی ہے اور ہر بار دستیاب وسائل اور رائج طبی علوم کے سہارے حُکما اور حکومتوں نے ان کا تریاق تیار کیا اور انسانیت کو بڑے نقصانوں سے بچایا البتہ آمد و رفت اور خبر ر...