امام بخارى اور تاريخ كى بنياد پر حديث كى غلطيوں كى اصلاح
از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوی
(آكسفورڈ)
تمہيد:
"حديث تاريخ كى ايك نوع ہے"، اس موضوع كے مختلف پہلوؤں پر ميں نے عربى اور اردو ميں متعدد مضامين لكهے، عالم عرب وعجم كے حديث سے اشتغال ركهنے والے علماء وطلبه كے پيغامات موصول ہوئے كه ان مضامين سے انہيں حديث كى حقيقت سمجهنے ميں مدد ملى، اور يه پته چلا كه متقدمين كا منہج متاخرين سے كيوں ممتاز ہے، اور يہى ان مضامين كى غايت تهى، علم حديث كے جن شائقين كو اس موضوع كى گہرائى ميں جانے كى خواہش ہو وه عربى ميں ميرى كتاب (تمهيد علم الحديث) كا مطالعه كريں، اس كتاب كا انگريزى ترجمه بهى جلد ہى آنے والا ہے ۔
اس موضوع كى گزشته تحريروں ميں واضح كرنے كى كوشش كى گئى ہے كه حديث اور تاريخ ميں نسبت تساوى كى نہيں ہے، يعنى يه دونوں ايك ہى حقيقت كے دو نام نہيں، اور نه ان كے درميان تباين كى نسبت ہے، يعنى وه دونوں متضاد بهى نہيں ہيں، بلكه ان كے درميان عموم وخصوص مطلق كى نسبت ہے، يعنى تاريخ/خبر جنس ہے، اور حديث اس كى ايك نوع، يا بلفظ ديگر تاريخ عام ہے اور حديث خاص ۔
ان مضامين ميں اس كى توثيق كى گئى كه اصل تاريخ/خبر ميں اشتراك كے باوجود ائمۂ حديث سنن وآثار كى تحقيق ميں زياده سختى برتتے ہيں، اسى لئے اصول سته ، يعنى صحيح بخارى (وفات 256 ہجرى)، صحيح مسلم (وفات 261 ہجرى)، سنن ابى داود (وفات 275)، سنن ترمذى (وفات 279 ہجرى)، سنن نسائى (وفات 303 ہجرى)، اور سنن ابن ماجه (وفات 273 ہجرى) وغيره كا معيار مجموعى طور پر عام مؤرخين محمد بن السائب (وفات 146 ہجرى)،عوانه بن الحكم (147 ہجرى)، ابو مخنف الازدى (وفات 147 ہجرى)،محمدبن اسحاق (وفات 150 ہجرى)، القرقي (وفات 155 ہجرى)، سيف بن عمر (وفات 180 ہجرى)، ابو اسحاق الفزارى (وفات 186 ہجرى)، اسحاق بن بشر (وفات 206 ہجرى)، ہشام بن محمد الكلبى (وفات 206 ہجرى)، محمد بن عمر الواقدى (وفات 207 ہجرى)، ہيثم بن عدى (وفات 207 ہجرى)، ابن هشام (وفات 218ہجرى)، ابن سعد (وفات 230 ہجرى)، خليفه بن خياط (وفات 240 ہجرى)، محمد بن حبيب البغدادي (وفات 245 ہجرى)، احمد بن يحيى بن جابر البلاذري (وفات 279 ہجرى)، وغيره كى كتابوں سے بمراتب فائق ہے، بعد ميں امام ابو جعفر محمد بن جرير الطبري (وفات 310 ہجرى) نے ان ميں سے اكثر معلومات كو جوں كا توں اپنى كتاب (تاريخ الامم والملوك) ميں شامل كرليا ۔
تاريخى حس:
حديث كے ائمۂ متقدمين جہاں حديث كے امام ہيں وہيں عام تاريخ كے بهى ماہر ہيں، اور دونوں فنون ميں ايك دوسرے سے مستفيد ہوتے رہتے ہيں، ان اہل علم كى تاريخى حس حيرت انگيز ہے، اس ميدان ميں خاص طور سے امام على بن المدينى، امام بخارى، ابو زرعه رازى، ابو حاتم رازى، مسلم، نسائى، ابن عدى، اور دارقطنى تحقيق كى چوٹى پر ہيں، حديثوں كى تصحيح وتضعيف ميں يه حضرات ائمۂ تاريخ كى تحقيقات پر بهى اعتماد كرتے ہيں ۔
تاريخ ميں امام بخارى كا مقام:
علم تاريخ ميں امام بخارى بہت بلند مقام پر فائز ہيں، انہوں نے اوپر ذكر كئے گئے تاريخى مصادر كا گہرائى سے مطالعه كيا، اور ان سے اپنى كتابوں ميں استفاده كيا، الجامع الصحيح كے علاوه امام بخارى كى دوسر كتابيں التاريخ الكبير، التاريخ الاوسط، التاريخ الصغير وغيره اس استفاده كى شاہد ہيں ۔
تاريخ ميں امام بخارى كا رتبه اتنا عظيم تها كه ان كے مشہور اساتذه بهى ان كى تحقيق پر اعتماد كرتے تهے، عن أبي بكر المديني، قال: كنا يوما بنيسابور عند إسحاق بن راهويه، ومحمد بن إسماعيل حاضر، فمر إسحاق بحديث من أحاديث النبي صلى الله عليه وسلم، وكان دون صاحب النبي صلى الله عليه وسلم عطاء الكيخارني، فقال له إسحاق: يا أبا عبد الله، أيش كيخاران؟ قال: قرية باليمن كان معاوية بن أبي سفيان قد بعث هذا الرجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم إلى اليمن، فسمع منه عطاء حديثين، فقال له إسحاق: يا أبا عبد الله، كأنك قد شهدت القوم. (تقييد المهمل 1/13-14).
صحيح بخارى ميں تاريخ سے استفاده:
امام بخارى نے الجامع الصحيح ميں ہر فن كى معتمد عليه كتابوں اور اس كے ثقات ماہرين سے استفاده كيا ہے، نحو ولغت كے مسائل ميں ائمۂ لغت، تفسير ميں ائمۂ تفسير، حديث ميں ائمۂ حديث، اور فقه ميں ائمۂ فقه كے حوالے كثرت سے ديتے ہيں، اسى طرح تاريخى مسائل ميں تاريخ كے ماہرين كے حوالے ديتے ہيں، صحيح بخارى كے ابواب مغازى وسير خاص طور سے اس كى مثالوں سے پر ہيں، دوسرے كتب وابواب ميں بهى اس كى مثاليں موجود ہيں ۔
تاريخ كى بنياد پر حديث كى تحقيق:
جيسا كه واضح كيا گيا كه حديث كى كتابوں كا معيار تاريخى كتابوں سے بدرجہا بڑها ہوا ہے، اور خاص طور سے صحيح بخارى غير معمولى امتياز كى حامل ہے، اس كے باوجود امام بخارى حديثوں كى تحقيق كرتے وقت مؤرخين كى طرف رجوع كرتے ہيں، بلكه ان مؤرخين كى روايتوں كى بنياد پر حديث كى غلطيوں كى تصحيح كرتے ہيں، ايك عام قارى حيران ہو جاتا ہے كه نسبتًا ايك كمزور روايت كى بنياد پر امام بخارى جيسا ماہر فن صحت كے اعلى معيار پر روايت كرده حديثوں كى غلطياں كيون درست كرتا ہے، اس پر ميں نے تفصيل سے اپنى كتاب (مدخل الى صحيح البخارى) ميں بحث كى ہے، يہاں اجمالا يه عرض ہے كه ثقات محدثين بهى غلطياں كر سكتے ہيں، بلكه غلطياں كرتے ہيں، اور جب قرائن سے ان كى غلطياں واضح ہو جاتى ہيں، تو امام بخارى ان غلطيوں كى اصلاح كرنے ميں پس وپيش نہيں كرتے ۔
تاريخ كى روشنى ميں حديث كى غلطيوں كے اصلاح كے لئے امام بخارى اپنى الجامع الصحيح ميں بالعموم درج ذيل طريقے اختيار كرتے ہيں:
صراحتا تنبيه:
كبهى كبهى غلطى پر صراحتًا تنبيه كرتے ہيں، مثلاً صحيح بخارى كتاب الجهاد، باب الدعاء على المشركين بالهزيمة والزلزلة ميں روايت كرتے ہيں: حدثنا عبد الله بن أبي شيبة، حدثنا جعفر بن عون، حدثنا سفيان، عن أبي إسحاق، عن عمرو بن ميمون، عن عبد الله رضي الله عنه قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي في ظل الكعبة، فقال أبو جهل وناس من قريش، ونحرت جزور بناحية مكة، فأرسلوا فجاؤوا من سلاها وطرحوه عليه، فجاءت فاطمة فألقته عنه، فقال: اللهم عليك بقريش، اللهم عليك بقريش، اللهم عليك بقريش. لأبي جهل بن هشام، وعتبة بن ربيعة، وشيبة بن ربيعة، والوليد بن عتبة، وأبي بن خلف، وعقبة بن أبي معيط. قال عبد الله: فلقد رأيتهم في قليب بدر قتلى. قال أبو إسحاق: ونسيت السابع.
اس حديث ميں بدر ميں مقتول ہونے والے قريش كے ليڈروں ميں ايك نام ابى بن خلف كا ہے، مؤرخين كا اس پر اتفاق ہے كه ابى بن خلف جنگ احد ميں قتل ہوا تها، بدر ميں مقتول ہونے والا اميه بن خلف ہے، اس حديث ميں ابى بن خلف غلط ہے، اسى لئے امام بخارى اس روايت كے ذكر كے بعد فرماتے ہيں: "والصحيح أمية"، يعنى ابى بن خلف غلط ہے، صحيح اميه بن خلف ہے ۔
ضمنا تنبيه:
زياده تر امام بخارى حديث كى غلطيوں كى اصلاح معلق روايات كے ذريعه كرتے ہيں، معلق وه روايت جس ميں امام بخارى اپنے شيخ يا شيخ اور شيخ كے شيخ يا ان سے زياده روات كو حذف كرديتے ہيں، معلق روايات كى بہت سے قسميں ہيں، اور تعليق كے اسباب مختلف ہوتے ہيں، ميں نے اپنى كتاب (المدخل الى صحيح البخارى) ميں ان پر تفصيل سے گفتگو كى ہے، يہاں جس سياق ميں بات ہو رہى ہے اس كے اعتبار سے معلق روايت صحيح كے معيار كى نہيں ہوتى ہے، ليكن في الجمله استدلال كے لئے قابل قبول ہو سكتى ہے خاص طور سے جب اس كے حق ميں كوئى قرينه ہو ۔
امام بخارى كتاب الغسل ميں روايت كرتے ہيں: حدثنا محمد بن بشار، قال: حدثنا معاذ بن هشام، قال: حدثني أبي عن قتادة، قال: حدثنا أنس بن مالك، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يدور على نسائه في الساعة الواحدة من الليل والنهار وهن إحدى عشرة، قال: قلت لأنس: أوكان يطيقه؟ قال: كنا نتحدث أنه أعطي قوة ثلاثين ۔
اس حديث كا حاصل يه ہے كه نبى كريم صلى الله عليه وسلم كبهى كبهى رات يا دن ميں اپنى سارى ازواج مطہرات سے تعلق قائم كرتے تهے، اور ان ازواج كى تعداد گياره تهى ۔
مؤرخين كا اس پر اجماع ہے كه نبى كريم صلى الله عليه وسلم كے نكاح ميں كبهى بيك وقت نو سے زياده عورتيں نہيں رہيں، امام بخارى اس حديث كى غلطى كى اصلاح ايك معلق روايت سے كرتے ہيں: "وقال سعيد عن قتادة: إن أنسا حدثهم تسع نسوة"، اس معلق روايت كے اعتبار سے ان ازواج كى تعداد نو تهى نه كه گياره، يہاں امام بخارى نے حديث كى غلطى كى اصلاح ايك معلق روايت سے اس قرينه كى وجه سے كى كه معلق روايت مؤرخين كى متفق عليه رائے كے مطابق ہے ۔
غلط لفظ كو حذف كردينا:
محدثين كے يہاں بہت عام ہے كه حديث ميں اگر كوئى لفظ راوى كى غلطى سے آگيا ہو تو اسے حذف كرديتے ہيں، امام بخارى كتاب الفرائض، باب ميراث البنات ميں روايت كرتے ہيں: حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا الزهري، قال: أخبرني عامر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه، قال: مرضت بمكة مرضا فأشفيت منه على الموت، فأتاني النبي صلى الله عليه وسلم يعودني، فقلت: يا رسول الله! إن لي مالا كثيرا وليس يرثني إلا ابنتي، أفأتصدق بثلثي مالي؟ قال: لا، قال: قلت: فالشطر؟ قال: لا، قلت: الثلث، قال: الثلث كبير، إنك إن تركت ولدك أغنياء خير من أن تركهم عالة يتكففون الناس، وإنك لن تنفق نفقة إلا أجرت عليها حتى اللقمة ترفعها إلى في امرأتك، فقلت: يا رسول الله! آأخلف عن هجرتي؟ فقال: لن تخلف بعدي فتعمل عملا تريد به وجه الله إلا ازدت به رفعة ودرجة، ولعل أن تخلف بعدي حتى ينتفع بك أقوام ويضر بك آخرون، لكن البائس سعد بن خولة يرثي له رسول الله صلى الله عليه وسلم أن مات بمكة ۔
اس حديث ميں مكه مكرمه ميں حضرت سعد بن أبى وقاص رضي الله عنه كى بيمارى اور ان كى وصيت كا مشہور قصه نقل ہے، يه كس موقع كى بات ہے؟ عام مؤرخين كے نزديك يه واقه حجة الوداع كا ہے، ليكن سفيان بن عيينه نے اسے فتح مكه كا واقعه گردانا ہے، امام بخارى نے يه روايت سفيان بن عيينه كے واسطه سے نقل كى، اور اس ميں سے اس غلط لفظ كو حذف كرديا ۔
غلط لفظ حذف كرنے كى ايك مثال صحيح مسلم ميں ياد آگئى، امام مسلم كتاب الطهارة ميں امام حماد بن زيد كى ايك روايت نقل كرنے كے بعد فرماتے ہيں: "وفي حديث حماد بن زيد زيادة حرف تركنا ذكره"، ميں نے اپنى شرح مسلم ميں اس پر تفصيل سے گفتگو كى ہے ۔
غلط لفظ كو بدل دينا:
امام بخارى يه بهى كرتے ہيں كه غلط لفظ كو يا تو بدل ديتے ہيں، يا اسے مبہم كرديتے ہيں، كتاب الزكاة، باب أي الصدقة أفضل وصدقة الشحيح الصحيح ميں روايت كرتے ہيں: حدثنا موسى بن إسماعيل حدثنا أبو عوانة عن فراس عن الشعبي عن مسروق عن عائشة رضى الله تعالى عنها أن بعض أزواج النبي صلى الله عليه وسلم قلن للنبي صلى الله عليه وسلم أينا أسرع بك لحوقا؟ قال: أطولكن يدا فأخذوا قصبة يذرعونها فكانت سودة أطولهن يدا فعلمنا بعد أنما كانت طول يدها الصدقة وكانت أسرعنا لحوقا به وكانت تحب الصدقة ۔
يه مشہور قصه ہے كه بعض ازواج مطہرات نے نبى اكرم صلى الله عليه وسلم سے استفسار كيا كه آپ كے وصال كے بعد ان ازواج ميں سے كس كا انتقال سب سے پہلے ہوگا، آپ نے فرمايا كه جس جس كا ہاته سب سے زياده لمبا ہو، امہات المؤمنين نے اپنا اپنا ہاته نانپا تو سب سے لمبا ہاته حضرت سوده رضي الله عنها كا تها، ليكن انتقال سب سے پہلے حضرت زينب بنت جحش رضي الله عنها كا ہوا، وه بڑى فياض تهيں، تو سب كو معلوم ہوا كه ہاته كى لمبائى سے مراد فياضى تهى، بخارى كى مندرجه بالا روايت ميں تها كه سب سے پہلے انتقال حضرت سوده كا ہوا، جو تاريخى لحاظ سے غلط ہے، امام بخارى نے حضرت سوده كا نام نكال كر ايسى تبديلى كردى كه حديث كى غلطى چهپ جائے ۔
امام بخارى نے كتاب فضائل المدينة، باب حرم المدينة ميں روايت كيا ہے: حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن، حدثنا سفيان، عن الأعمش، عن إبراهيم التيمي، عن أبيه، عن علي رضي الله عنه قال: ما عندنا شيء إلا كتاب الله وهذه الصحيفة عن النبي صلى الله عليه وسلم، المدينة حرم ما بين عائر إلى كذا، من أحدث فيها حدثا أو آوى محدثا فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل منه صرف ولا عدل، وقال ذمة المسلمين واحدة فمن أخفر مسلما فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل، ومن تولى قوما بغير إذن مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل، قال أبو عبد الله: عدل فداء ۔
اصل روايت ميں تها كه مدينه حرم ہے عائر سے ليكر ثور تك، ثور مكۂ مكرمه ميں ہے، مؤرخين كے نزديك ثور كا لفظ يہاں غلط ہے، چنانچه امام بخارى نے "ثور" كى جگه "كذا" كرديا جو ايك مبہم لفظ ہے ۔
غلط حديث كا اسقاط:
بعض حديثيں تاريخى لحاظ سے اس قدر غلط ہيں كه ان كى اصلاح ممكن نہيں، ايسى حديثوں كو امام بخارى قصدًا اپنى كتاب ميں شامل نہيں كرتے، امام مسلم نے اپنى صحيح ميں نقل كيا ہے: حدثني عباس بن عبد العظيم العنبري، وأحمد بن جعفر المعقري، قالاحدثنا النضر، - وهو ابن محمد اليمامي حدثنا عكرمة، حدثنا أبو زميل، حدثني ابن عباس، قال: كان المسلمون لا ينظرون إلى أبي سفيان ولا يقاعدونه فقال للنبي صلى الله عليه وسلم يا نبي الله ثلاث أعطنيهن قال نعم. قال عندي أحسن العرب وأجمله أم حبيبة بنت أبي سفيان أزوجكها قال نعم. قال ومعاوية تجعله كاتبا بين يديك. قال نعم. قال وتؤمرني حتى أقاتل الكفار كما كنت أقاتل المسلمين. قال نعم. قال أبو زميل ولولا أنه طلب ذلك من النبي صلى الله عليه وسلم ما أعطاه ذلك لأنه لم يكن يسئل شيئا إلا قال نعم ۔
اس حديث كى رو سے حضرت ابو سفيان رضي الله عنه نے اپنى بيٹى ام حبيبه رضي الله عنها كو نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كے نكاح ميں پيش كيا، جو تاريخى لحاظ سے غلط ہے، كيونكه نبى اكرم صلى الله عليه وسلم سے حضرت ام حبيبه رضي الله عنها كا نكاح حضرت ابو سفيان كے اسلام لانے سے پہلے ہوا، جبكه حضرت ام حبيبه حبشه ميں تهيں، اور قصه مشہور ہے ۔
يہاں يه سوال پيدا ہوتا ہے كه امام مسلم نے يه حديث اپنى صحيح ميں كيوں شامل كى؟ اس پر ميں نے اپنى شرح مسلم ميں بحث كى ہے، يہاں اس پورى بحث كا نقل كرنا خارج از موضوع ہے ۔
خلاصه:
يه چند مثاليں نمونے كے طور پر ذكر كى گئى ہيں، ورنه اس طرح كى مثاليں صحيح بخارى ميں كثرت سے ہيں، ميں نے اپنى كتاب (مدخل الى صحيح البخارى) ميں مزيد مثالوں كے ذريعه اس موضوع پر سير حاصل بحث كى ہے ۔
آخر ميں حديث كے طلبه سے گزارش ہے كه حديث كو عام تاريخ كا حصه سمجهكر پڑهيں، اور مؤرخين كى تحقيقات سے بهى استفاده كريں، حديث اور تاريخ كى روايتوں كا موازنه كرنے سے انہيں راويوں كى غلطيوں اور اوہام كا علم ہوگا ۔