مسلمان اس دھرتی پر ایک بوجھ ہے ، مسلمان وحشی ہے ، مسلمان دہشت گرد ہے ، مسلمان انتہا پسند ہے ، وہ ترقی یافتہ تہذیب کی پیشانی پر ایک داغ ہے ، وہ دنیا کی سب سے پچھڑی ہوئی قوم ہے ، کاروان زندگی میں وہ پچھلی نشست کا مسافر ہے ، ترقی اور مسلمان دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ، آخر معاصر ترقی یافتہ دنیا میں اس کا کیا اشتراک عمل ہے ؟
عجیب زمانہ آگیا ہے کہ اب اندھیرا روشنی سے حساب مانگ رہا ہے جھوٹ سچ کا منھ چڑھا رہا ہے ، جہالت کے اندھیروں میں بھٹکنے والے روشنی کے پیمبر بنے پھرتے ہیں اور اپنے ماضی سے نظریں چرانے والے وقت کا سکندر ہونے کا دم بھرتے ہیں
اب انھیں کون بتلائے کہ اگر مسلمان نہ ہوتے اور تہذیب کی محرابوں پر اگر انھوں نے قندیلیں روشن نہ کی ہوتیں تو موجودہ دنیا ترقیات کی چکاچوند سے اسقدر بہرہ ور نہ ہوتی ۔
انڈپنڈنٹ میگزین کے مطابق حال ہی میں برطانیہ کے ایک ادارے نے مسلمانوں کے علمی کارناموں کی ایک نمائش لگائی اور برطانوی مصنف پال ویلیلی نے مسلمانوں کے بیس ایسے کارناموں کو شمار کروایا کہ اگر انھیں ایجاد نہ کیاگیا ہوتا تو موجودہ دنیا کی وہ صورت نہ ہوتی جو اسوقت ہم دیکھ رہے ہیں ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ قہوہ کی دریافت سب سے پہلے مسلمانوں نے کی اور اسے ایک عالمی مشروب بنایا، خالد نامی ایک عرب جنوبی ایتھوپیا میں بکریاں چرا رہا تھا اس دوران اسے احساس ہوا کہ اس کی بکریاں ایک خاص قسم کا بیج کھاکر کافی چست دکھائی دے رہی ہیں چنانچہ اس نے ان بیجوں کو جمع کیا اور اسے ابال کر تاریخ میں پہلی بار قہوہ تیار کیا ، اسے پہلے دفعہ یمن کے صوفیاء نے ایتھوپیا سے برآمد کیا ، وہ راتوں کو اسے پیتے تھے تاکہ دیر رات تک عبادات کے لیے چاق و چوبند رہ سکیں ، پندرہویں صدی عیسوی میں قہوہ مکہ اور ترکی پہونچا پھر اس کے بعد اٹلی کے شہر , وینس , پہونچا اس کے بعد سترہوں صدی عیسوی کے وسط میں ایک ترک کے ذریعہ برطانیہ پہونچا اور اس نے پہلی بار لندن کے لامبارڈ روڈ پر کافی کی ایک دوکان کھولی اس کے بعد سے قہوہ کو ترکی زبان میں , کہفی ، اٹلی زبان میں , کافا , اور انگریزی میں ,کافی , کہا جانے لگا ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ علم ریاضی ، فلکیات اور فزکس کا استاذ ابن ہیثم کیمرہ کا موجد ہے جو کہ اسوقت جدید ذرائع ابلاغ ( میڈیا ) کی بنیاد ہے ، کیمرہ عربی کے لفظ , قمرہ , سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے تاریک کمرہ یا خاص کمرہ ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ شطرنج کے کھیل کی جو شکل آج پائی جاتی ہے اسے ترقی دے کر فارسیوں نے یہاں تک پہونچایا ہے انگریزی کا لفظ راک (Rock ) دراصل فارسی کے لفظ, رخ , سے نکلا ہے ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ ماہر فلکیات شاعر میوسیقار اور انجینئر عباس بن فرناس نے رایٹ برادرس ( موجودہ دور میں ان دونوں بھائیوں کو ہوائی جہاز کا موجد مانا جاتا ہے ) سے ایک ہزار سال قبل ہوابازی کے لئے ایک مشین تیار کی تھی ، اس نے پہلے ایک خول میں لکڑیوں سے تیار شدہ کچھ میٹیریل بھرا اور پھر شہر قرطبہ کے ایک بلند مینار سے اُڑان بھرا ، اسے تاریخ کا پہلا پیراشوٹ ( Parachute ) کہا جاتا ہے پھر اس کے بعد اس نے ریشم اور عقاب کے پروں کی مدد سے ایک دوسری مشین تیار کی اور ایک پہاڑی کی بلندی سے اُڑا اور دس منٹ تک آزاد فضا میں گھومتا رہا اس کے بعد وہ زمین آگرا ، بعد میں پتہ چلا کہ زمین پر گرنے کی اصل وجہ اس مشین میں دُم کا نہ پایا جانا تھا ۔
کیا آپ کو معلوم ہے وہ صابن جو ہم اور آپ استعمال کرتے ہیں اسے سب سے پہلے مسلمانوں نے تیار کیا اور اس میں ہربل آئل ، ہائیڈرو آکسائڈ ، سوڈیم اور مختلف عطورات کا اضافہ کیا جب کہ اسی زمانے میں صلیبیوں کے جسم سے بھیانک قسم بدبو آتی تھی ، بتایا جاتا ہے کہ انگلیںڈ میں سب سے پہلے ایک مسلمان نے شمپو کو متعارف کروایا جسے بعد میں بادشاہ جارج اور ویلیمXIV کے محل کی صفائی اور شمپو کا ذمہ دار بنایا گیا ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ جدید علم کیمیاء کا بانی جابر بن حیان ہے اسوقت اسٹیم ، فلٹریشن ، عرق کشی ، ڈس انفیکشن ( جراثیم کش دوا کا استعمال ) وغیرہ سے متعلق جتنی بھی صنعتیں پائی جائی ہے اس کا سہرا جابر بن حیان کے سر جاتا ہے ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ انسانی تاریخ کی میکینیکل ایجادات میں سب سے اہم ایجاد والو(valve ) ایک جزائری انجینئرکی ایجاد ہے ، مشینی گھڑی بھی اسی کی ایجاد ہے ، دور جدید کی صنعتیں جس خودکار اور میکینیکل نظام پر قائم ہیں اسے اس کا بابائے آدم کہا جاتا ہے ، یہی شخص ان ڈیجیٹل تالوں کا موجد بھی ہے جسے آج کل لاکرس اور خزانوں میں کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ انسولیشن میٹیریل
( Insulation material موصلیت کا مواد )
سب سے پہلے مسلمانوں نے ایجاد کیا ، انھوں نے ہی سب سے پہلے ایسے کپڑے تیار کیے جس کے اندر گرمی یا سردی سے بچانے والا میٹیریل استعمال کیا جاتا تھا ، اور آج بھی اسے فوجیوں کے کپڑوں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ مسلمان انجینئرس نے سب سے پہلے جیومیٹرک آرکس ( Geometric arcs) ایجاد کیا جسے بعد ازاں مغرب نے اپنی تعمیراتی انجینرنگ میں استعمال کیا اگر اسلامک انجینرنگ سائنس
کا وجود نہ ہوتا تو دنیا کو مغربی ممالک میں دیو ہیکل قلعے محلات اور ٹاورس کا دیکھنا نصیب نہ ہوتا ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ سرجری اور تشریح الاعضاء ( اناٹومی )میں اسوقت جو اوزار استعمال کیے جاتے ہیں اسے دسویں صدی عیسوی میں زہراوی نامی سائنسداں نے ایجاد کیا تھا ، اسوقت سیکڑوں قسم کے جو اوزار ( Tools ) ڈاکٹرس استعمال کرتے ہیں اس کا ڈیزائنر زہراوی ہی ہے ، اسی نے آپریشن کے بعد زخموں کی سلائی میں استعمال کیے جانے والے اس دھاگے (Stiching ) کی بھی دریافت کی تھی جو آپریشن کے بعد خود بخود جسم میں گل کر ختم ہوجاتا ہے ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ ,ہاروے , سے تین سو سال قبل تیرہویں صدی عیسوی میں
ابن النفیس نے خون کے دوران ( Blood circulation )کا انکشاف کیا تھا ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ مسلمان سائنسدانوں نے سب سے پہلے اینستھیزیا ( مریضوں کے آپریشن سے پہلے سُنّ کرنے والی دوا ) ایجاد کیا اسی طرح اسی مقصد سے الکحل کے ساتھ افیم کا استعمال بھی انھیں کی دریافت ہے ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہوا کی مدد سے چلنے والی چکی مسلمانوں کی ایجاد ہے جس سے مکئی کی پسائی اور کھیتوں کی سینچائی کی جاتی تھی ، اس کی ایجاد کے پانچ سو سال گزر جانے کے بعد یورپ کو اس کا علم ہوا ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ ویکسین کا موجد فرانسیسی سائنسداں لوئس پاسٹر (Louis Pasteur) نہیں بلکہ مسلمان ہیں ، اسطنبول میں مقیم برطانوی سفیر کی بیوی کے ذریعہ 1724 عیسوی میں سب سے پہلے یہ یورپ پہونچا ۔
یورپ سے پچاس سال قبل بعض مہلک بیماریوں سے بچانے کے لیے ترک اپنے بچوں کے لیے اس کا استعمال شروع کر چکے تھے ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ مصرکے سلطان نے ایک ایسے قلم کے ایجاد کا مطالبہ کیا تھا جس سے ہاتھ اور کپڑے خراب نہ ہوتے ہوں اسی کے مطالبہ کی بنیاد پر ڈاٹ پن ایجاد ہوا جسے اسوقت دنیا میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے ۔
کیا آپ کو معلوم ہے ,نمبروں کا نظام ,خوارزمی اور کندی نے ایجاد کیا اور خوارزمی ہی , الجبرا ،کا موجد بھی ہے
اٹلی کا رہنے والا لیونارڈو فیبوناسی نے عربی علمِ حساب کو عالم عربی میں ایجاد ہونے کے تین سو سالوں کے بعد یورپ منتقل کیا لیکن افسوس کہ مغرب اسے اس علم کا ناقل سمجھنے کے بجائے اس کا موجد سمجھتا ہے اسی طرح ,علمِ لوگرتھمز ، کا موجد بھی ایک مسلم سائنسداں ہے اور علم سرنامیہ (Knowledge of acronyms) کی اصل بھی عربی ہے ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ علی بن نافی جو زریاب کے نام سے مشہور ہے وہ جدید غذائی نظام کا بانی ہے وہ عراق سے قرطبہ آیا اور جدید ڈش سسٹم سے متعارف کروایا اس کے مطابق اس کے تین حصے ہیں ایک سوپ دوسرا مین ڈش یعنی گوشت یا مچھلی اور تیسرا میٹھا و ڈرائی فروٹ ۔
اسی نے کریسٹل گلاسوں کو بھی ترقی دی جس کی ابتدائی ایجاد عباس بن فرناس کی مرہون منت ہے ۔
کیا آپ کو معلوم کہ بُنائی کا علم مسلمانوں کی دین ہے خاص طور سے قالین کا کام اور یہ اس زمانے کی بات ہے جب عام طور سے یورپ میں گھروں کا فرش کچا یا ابتدائی پختہ شکل میں ہوا کرتا تھا اس کے بعد یہ یورپ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا ۔
کیا آپ کو معلوم ہے انگریزی کا لفظ , چیک , کی اصل عربی ہے ، عربی زبان میں اسے , صك ، کہا جاتا ہے ، یعنی سامان کی قیمت کی گارنٹی ، اسے اس لیے ایجاد کیا گیا تاکہ نقدی غیر محفوظ علاقوں میں جانے سے محفوظ رہے نوویں صدی ہجری میں مسلمان تاجر بغداد میں قابل صرف چیکس کو لے جاکر چین میں کیش کراتے تھے ، دوسرے لفظوں کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمان نئے مالیاتی نظام کے بانی ہیں ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ گلیلو سے پانچ سو سال قبل ابن حزم نے انکشاف کیا تھا کہ زمین بھی ایک سیارہ ہے جو گردش کرتا رہتا ہے ، عرب ماہر فلکیات کمالِ مہارت کے ساتھ ستاروں کی نقل وحرکت کا حساب لگایا کرتے تھے ، معروف اسلامی اسکالر ادریسی نے سسلی ( اٹلی ) کے بادشاہ روجر
کی خدمت میں ایک دنیا کا ایک نقشہ ( Globe )پیش کیا تھا جس میں بارہوں صدی عیسوی کے تمام ممالک اور صوبوں کے نام درج تھے ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ عسکری ضروریات کے پیش نظر سب سے پہلے مسلمان سائنسدانوں نے بارود اور پوٹاشیم کا استعمال کیا اور میزائل کا ایجاد کیا جو دشمنوں کی کشتیوں کو نشانہ بناکر تباہ وبرباد کردیا کرتا تھا ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ سب سے پہلے مسلمانوں نے پارک کا تصور پیش کیا تاکہ قدرتی حسن سے لطف اندوز ہوا جاسکے جب کہ اس زمانے میں یورپین اس کا استمال صرف ساگ سبزیاں اگانے کے لیے کیا کرتے تھے ، گل لالہ اور یاسمین کی زراعت بھی سب سے پہلے مسلمانوں نے کی جس سے اسوقت یورپ کے گارڈن اور پارک مزین ہیں ۔
مسلمانوں کے بے شمار علمی کارناموں میں سے یہ صرف چند کا تذکرہ ہے جو دور جدید کی ترقیات کی بنیاد ہے
کاش کہ ڈنمارک کا کارٹونسٹ اس نمائش میں جاتا اور مسلمانوں کے علمی کارناموں کو بچشم سر دیکھتا اور اس تہذیب سے روشناس ہوتا کہ جس نے اس کے لیے قلم ایجاد کیا جس کی بدولت آج وہ اپنے کارٹون بناتا ہے ، اسی طرح سے مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے شاندار ماضی کو یاد کریں شاید اسے دیکھ کر ان کی حمیت بیدار ہو اور وہ دوبارہ اٹھ کھڑے ہوں ، اور اپنے اندر بڑھ رہے مایوسی کے سائے کو ختم کریں ، امید کی نئی جوت جگائیں ،اپنا بھولا ہوا سبق یاد کریں اپنے بچوں میں شاہیں کا جگر پیدا کریں ، دنیا کے سامنے دست نگر بننے کے بجائے داتا بنیں ۔
یہ ذمہ داری ان تمام مسلم ممالک پر عائد ہوتی ہے جو وسائل سے مالا مال ہیں ان پر فرض ہے کہ وہ داد عشرت دینے کے بجائے علمی وتحقیقی ادارے قائم کریں ، مہنگے فون اور لکزری گاڑیاں برآمد کرنے کے بجائے ٹکنالوجی کی ترقیات پر توجہ دیں اور اپنے نوجوانوں کو ریسرچ کے تمام جدید وسائل مہیا کریں تو عجب نہیں کہ پھر جابر بن حیان ، خوارزمی ، کندی ، زہراوی اور ابن ہیثم دوبارہ ہماری صفوں سے نمودار ہوں اور اس دنیا کو ترقیات کے ایک نئے عہد سے روبروکرائیں ۔
تحریر: محمد شاہد خان دوحہ قطر