ممکن ہے یہی دل کے ملانے کا سبب ہو
یہ رُت جو ہمیں ہاتھ ملانے نہیں دیتی !
کورونا وائرس سے پہلے جن بیماریوں کو بھی وبا کا درجہ دیا گیا وہ کسی ملک یا خطے تک محدود رہیں اور اس جغرافیائی محدودیت کی بنا پر انکا شکار ہونے والے افراد کی تعداد بھی محدود رہی لہذا انکے نفسیاتی، سماجی اور معاشی اثرات بھی ایک خاص خطے سے آگے نہ بڑھ سکے۔
وباؤں کی معلوم اور مُدوّن تاریخ پر نظر ڈالیں تو دنیا کئی بار ان سے نبرد آزما ہوچکی ہے اور ہر بار دستیاب وسائل اور رائج طبی علوم کے سہارے حُکما اور حکومتوں نے ان کا تریاق تیار کیا اور انسانیت کو بڑے نقصانوں سے بچایا البتہ آمد و رفت اور خبر رسانی کے اسباب نہ ہونے کی بنا پر نہ متاثرین دوسری جگہوں تک پہنچ سکے اور نہ ان کی خبروں نے دوسری اقوام کو پریشان کیا۔
ماہرین کے مطابق اولین سب سے مہلک وبا کا پتہ تین ہزار قبل مسیح میں چین کے ایک علاقے ہیمین مانگا سے ملتا ہے جہاں ماہرین آثار قدیمہ نے ایک سائٹ دریافت کی ہے جہاں ہر عمر کی بے شمار انسانی کھوپڑیاں ملی ہیں جن کو بظاہر ایک جگہ مسلسل جلایا گیا تاکہ دوسرے اُس وبا سے محفوظ رہیں۔ چین ہی کے ایک دیگر شمال مشرقی علاقے میاؤزیگو سے بھی تقریبا اسی زمانے کی ایسی باقیات دریافت کی گئی ہیں جن پر تحقیق کے بعد ماہرین نے اندازہ لگایا کہ وبا نے پورے اُس خطے کو ایسا لپیٹ میں لیا کہ شاید ہی کوئی بچا ہو۔ سن 430 قبل مسیح میں یونان میں ایک بڑی جنگ کے بعد وبا پھیلی جو پانچ سال تک جاری رہی اور بعض اندازوں کے مطابق ایک لاکھ افراد اسکے ہاتھوں لقمۂ اجل بنے۔ سن 165 تا 180 عیسوی کے دوران ایک مہلک ترین وبا کا تذکرہ ملتا ہے جس نے رومی سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا اور تخمیناً پچاس لاکھ افراد اس بیماری سے مرگئے، سلطنت کمزور ہوگئی، خانہ جنگی بڑھ گئی اور عوام میں مسیحیت کا زور ہوا۔
سن 250 سے 271 عیسوی کے دوران طاعون پھیلا اور اسکی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ایک دن میں اٹلی کے صرف ایک شہر روم میں پانچ ہزار سے زیادہ آدمی دم توڑ گئے۔ سن 541-42 عیسوی میں بازنطینی سلطنت کے مشہور ترین بادشاہ جسٹینیان کے دور میں طاعون پھیلا اور کہا جاتا ہے کہ اس میں دنیا کے تقریبا دس فیصد افراد مر گئے۔ اس وبا کے معاشی اور سیاسی اثرات بھی مرتب ہوئے اور بازنطینی سلطنت کمزور ہوتی چلی گئی۔ سن 1346 سے 1353 عیسوی کے درمیان بلیک ڈیتھ نامی بکٹیریا نے یوروپ کو اپنی لپیٹ میں لیا اور ایک اندازے کے مطابق یورپ کی آدھی آبادی دنیا سے مٹ گئی بلکہ اس وبا نے یورپ میں بنیادی تبدیلیاں پیدا کردیں اور مزدوروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے متبادل ایجادات کی طرف توجہ کی گئی۔ حالیہ کووڈ۱۹ کی وجہ سے بھی نئی نئی ٹیکنالوجیز سامنے آئی ہیں جو اگر یہ وبا اور اسکے انسانوں کو قید کردینے والے اثرات نہ ہوتے تو شاید اتنی جلدی اور اتنی متنوع انداز میں سامنے نہ آتیں۔
سن 1545 سے 1548 کے دوران میکسیکو اور وسطی امریکہ کے علاقوں میں پھوٹنے والی وبا میں تقریبا پندرہ ملین افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سن 1665-66 میں لندن میں پھیلی بیماری میں تقریبا ایک لاکھ زندگیاں ختم ہوگئیں، سن 1720 سے 1723 کے دوران فرانس کے صوبے مارسیلیا میں وبائی مرض سے مجموعی آبادی کا تقریبا تیس فیصد حصہ صفحۂ ہستی سے مٹ گیا۔ سن 1770-72 روس کے دار الحکومت موسکو میں پھیلنے والی وبا سے تخمینا ایک لاکھ افراد مارے گئے اور شدید قسم کی انارکی پھیل گئی ، ملکہ کیتھرین دوم نے بمشکل اپنی سلطنت بچائی۔
سن 1889-90 میں مہلک فلو پھیلا، چونکہ آمد و رفت کے ذرائع کافی بہتر ہوچکے تھے لہذا چند ماہ میں ہی یہ فلو کئی ملکوں میں پھیل گیا اور تقریبا دس لاکھ افراد موت کی آغوش میں چلے گئے۔
گزشتہ صدی میں دو بڑے فلو آئے، پہلا سن 1918 سے 1920 کے دوران جس کو اسپینش فلو کہا جاتا ہے، اس بیماری سے دنیا کے تقریبا پانچ سو ملین افراد متاثر ہوئے جن میں سے ایک کروڑ کے قریب جانبر نہ ہوسکے۔ دوسرے فلو کو ایشین فلو کہتے ہیں جو سن 1957-58 میں چین سے پھیلا اور تقریبا دس لاکھ انسانی جانیں ضائع ہوگئیں۔ ان کے بعد ایڈز، H1N1 سوائن فلو ، ایبولا اور زیکا جیسے وائرس اور وبائیں پھیلیں جنہوں نے لاکھوں ہنستے کھیلتے گھروں کو اجاڑ دیا اور جو آج بھی موجود ہیں اور تمام تر طبی اور سائنسی ترقی کے باوجود مکمل طور پر انکا خاتمہ نہیں کیا جاسکا ہے۔
گزشتہ ان تمام وباؤں اور بیماریوں سے جو چیز کووڈ۱۹ نامی آج کی وبا کو نمایاں کرتی ہے وہ اسکی پراسراریت اور براہ راست معیشت پر اسکی کاری ضرب ہے۔ بیان کردہ سابقہ تمام وبائیں اپنی تمام تر ہولناکیوں کے باوجود پوری دنیا کو متاثر نہیں کرسکی تھیں اور اسیطرح انکے معاشی اور سیاسی اثرات بھی متعلقہ ملکوں اور خطوں تک محدود رہے لیکن اس غیر مرئی کورونا وائرس نے پہلی بار پوری دنیا کے انسانوں کو بیک وقت مجبور اور محصور کر دیا ہے۔ معلوم تاریخ انسانی میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب ہر قسم کی آمد و رفت اور نقل و حمل کے ذرائع اور میل ملاپ اور ملاقات پر یکساں پابندیاں لگائی گئیں اور نیگیٹو ہونا پازیٹو ہونے کی علامت قرار پایا۔ خوف و دہشت اور لاچاری و بے ثباتی کا ایسا ماحول بنا ، یا بنا دیا گیا کہ ایک ہی گھر کے مکین دوسرے سے فاصلہ برتنے لگے۔ بالخصوص ابتدائی تین چار ماہ دنیا کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوئے۔ شدید ترین ذہنی اور نفسیاتی دباؤ کے ماحول میں متاثرین کی تعداد میں ڈرامائی اضافے کے متعلق لمحہ بہ لمحہ اور تازہ بہ تازہ خبروں نے بچوں اور بڑوں سبھی کو ناقابل بیان ذہنی کیفیت میں مبتلا کردیا۔ یہ ایک ایسا مرحلہ تھا جس کو ہم میں سے کوئی یاد نہیں کرنا چاہتا ، ہم بھول بھی جائیں مگر تاریخ کچھ نہیں بھولتی۔ وہ مریضوں اور متوفیوں کے ساتھ ساتھ ان کو بھی یاد رکھتی ہے جنہوں نے اس حوصلہ شکن ماحول میں لوگوں کو حوصلہ دیا ، ان کی رہنمائی کی اور ان کے دلوں میں زندگی کے چراغ روشن کیے ۔ وہ چاہے ڈاکٹر ہوں، نرسنگ اسٹاف ہوں، صحافی ہوں، سماجی کارکن ہوں، شاعر اور ادیب ہوں یا مثبت پیغام کو عام کرنے والے کالم نگار اور بلاگرز ہوں، تاریخ انکا بر وقت اور تعمیری کردار اپنے اُجلے صفحات میں محفوظ کرلیتی ہے اور مجھے یہ کہتے ہوئے اطمینان اور خوشی محسوس ہورہی ہے کہ شاہد خان صاحب کی “کورونا مریض کی ڈائری” نے بھی اُس بے اعتبارے موسم میں اعتبار، اعتماد ، ہمت اور مثبت سوچ کو سوشل میڈیا کے ذریعے ہزاروں لوگوں تک پہنچاکر کارِخیر کیا اور بالخصوص اپنے حلقۂ احباب میں زندگی بخش دوا کا کام کیا۔
یہ ڈائری بارہ مضامین پر مشتمل ہے جن میں سے گیارہ ایک ماہ کی طبی حراست یعنی قرنطینہ کے دوران قلمبند کیے گئے اور آخری آرٹیکل قرنطینی شہریت واپس لیے جانے کے بعد لکھا گیا جو اس صبر آزما ایک ماہ کے احساسات اور تجربات کا نچوڑ ہے۔
ان مضامین کی ادبی اور دستاویزی حیثیت اپنی جگہ مسلّم ہے لیکن میرے نزدیک ان کا سماجی مرتبہ زیادہ بلند اور قابل احترام ہے کیونکہ یہ مضامین جس وقت لکھے جارہے تھے ، اس یاسیت اور بے یقینی کے عالم میں ستارۂ سحری ثابت ہورہے تھے۔ نفسیاتی خوف کی وہ چادر جو عام لوگوں کے دل و دماغ پر طاری تھی، اس ڈائری کے ہر نئے صفحے کے ساتھ اس کے دھاگے کسمساکر ٹوٹتے جا رہے تھے۔۔
زبان ایسی شگفتہ اور اسلوب ایسا دلآویز ہے کہ پڑھنے والا اطمینان محسوس کرتا ہے اور بجائے کورونا وائرس سے خوف کھانے کے اس کے ساتھ لوہا لینے کے لیے خود کو تیار محسوس کرتا ہے۔
ان مضامین میں نفسیاتی تجزیے، آیات ، احادیث اور اشعار پر مشتمل دینی اور ادبی حوالے، سیاسی نیرنگیوں پر تبصرے، معیشت پر پڑنے والے وبائی اثرات کی طرف اشارے اور بحیثیت باپ، بیٹا، شوہر ، دوست اور بھائی کے ایک عام انسان کی کیفیات مرقوم ہیں جو انسانی زندگی کے ہر رنگ کا احاطہ کرتی ہیں۔
اکیس دن تک کا احوال انتہائی شوخی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جبکہ قرنطینہ کے آخری ایام کے صفحات پڑھنے والے کو فکر و تأمل اور حیات مُستعار کے شب و روز اور ترجیحات پر نظر ثانی کا مشورہ دیتے ہیں۔
کئی مقامات پر قلم اتنا شوخ ہے کہ پڑھنے والا بھول جاتا ہے کہ وہ کسی قرنطینی باشندے کے ساتھ ہے اور یہی شاہد خان صاحب کی وہ سماجی خدمت اور ان کا وہ حیات بخش پیغام ہے جو غیرشعوری طور پر پڑھنے والے کے دل سے خوف نکال کر اسکی جگہ عزم اور عزیمت کو بھر دیتا ہے ؛ اس ضمن میں سید زادے قادری کا تذکرہ پڑھا جاسکتا ہے جو بہت دلچسپ ہے اور فطری رچاؤ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
کورونا مریض کی ڈائری دراصل کسی مریض کے مرض کی رُوداد نہیں بلکہ زندگی اور انسانیت سے پیار کرنے والے ایک درد مند دل کے صحت افزا صفحات ہیں جن میں مرض سے ڈرنے کے بجائے لڑنے کا پیغام دیا گیا ہے اور زندگی کی قدر و قیمت کا احساس دلایا گیا ہے۔ وہ رشتے جو ہمارے آس پاس ہیں لیکن ہماری بے توجہی کا شکار ہیں اُن کو بحال کرنے اور انکا حق ادا کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ زندگی کی بے ثباتی کی طرف اشاروں کے ساتھ ساتھ زندگی کو قیمتی تحفہ بھی شمار کیا گیا ہے۔ یہ ڈائری خود کو Re-arrange کرنے اور کائنات اور خالقِ کائنات، اور اس کائنات کی حسین ترین مخلوق انسان کے ساتھ صحیح تعلق استوار کرنے کا پیغام دیتی ہے۔
شاہد خان صاحب نے یہ ڈائری لکھ کر لوگوں کو حوصلہ بخشا اور اب اس کو چھپوا کر آنے والی نسلوں کے لیے اس حیات آفریں نسخے کو محفوظ بھی کردیا جس کے لیے میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ڈائری پر مشرف عالم ذوقی صاحب کا وقیع مقدمہ اور برادرم سید شکیل احمد کا دیباچہ اس کی قدر و قیمت میں اضافہ کرتا ہے۔
میں شاہد خان صاحب کے اس پیغام کے ساتھ اجازت چاہوں گا جو ان کی ڈائری کی آخری سطور بھی ہیں اور میرے دل کی آواز بھی کہ :
“ حیات انسانی وقت کی لہروں پر صرف ایک بلبلہ ہے اور اس پتنگ کی طرح ہے جو سانسوں کی ڈور سے بندھی ہوئی ہے اور وہ ڈور کسی بھی لمحہ ٹوٹ کر زندگی کو آزاد کرسکتی ہے، اس لیے اے لوگو ! اپنی زندگی کو صرف اچھی یادوں اور نیک کاموں سے معمور کرو”۔
عبید طاہر
اردو ریڈیو قطر