
كورونا ويكسين اور علمائے كرام
(ایک ہمدردانہ مشورہ)
از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
(آكسفورڈ)
ادہر چند دنوں سے كورونا ويكسين كے متعلق استفتاء اور افتاء ميں تيزى آ رہى ہے، چونكہ راقم سطور كا تعلق بہى علماء كى اس جماعت سے ہے جس سے اس قسم كے سوالات پوچہے جا رہے ہيں، اس لئے ميرى يہ تحرير دخل در معقولات كے زمرہ ميں نہيں آئے گى، بلكہ اميد ہے كہ اپنى ہى جماعت كا ايك فرد سمجہتے ہوئے علمائے كرام اور مفتيان عظام اس پر سنجيدگى سے غور كريں گے ۔
كورونا ويكسين كى اباحت وحرمت پر كسى قسم كے اظہار خيال سے پہلے ہميں درج ذيل باتيں ذہن ميں ركہنى ہوں گى:
1- جن سائنسدانوں نے يہ ويكسين تيار كى ہے وہ علماء نہيں ہيں، نہ ہى انہوں نے كسى مدرسہ ميں تعليم حاصل كى ہے، اور نہ ہى اپنى ريسرچ كے درميان انہوں نے كسى دار الافتاء يا علماء كى كسى جماعت سے كوئى مشورہ كيا ہے ۔
2- اس ويكسين كے متعلق عالمى ادارۂ صحت رہنمايانہ اصول تيار كر رہا ہے، اس عالمى ادارہ ميں نہ كوئى مفتى ہے اور نہ كوئى عالم، اور نہ يہ ادارہ كسى مدرسہ يا دار الافتاء سے كسى رابطہ ميں ہے ۔
3- دنيا كا ہر ملك اپنے مفاد كے لحاظ سے اس ويكسين كے استعمال كى حكمت عملى تيار كر رہا ہے، اس مرحلہ ميں بہى نہ كسى مدرسہ سے كوئى مشورہ ہوگا اور نہ كسى دار الافتاء سے ۔
4- بظاہر نئى گائڈ لائن يہ ہوگى كہ بغير ويكسين كى سرٹيفيكيٹ كے حج اور عمرہ كا ويزہ نہيں ملے گا، بلكہ عام بين الاقوامى سفروں كے لئے ويكسين كى سرٹيفيكيٹ ضرورى ہوگى، اور شايد اندرون ملك بہى پبلك ٹرانسپورٹ اور عوامى اداروں كے لئے ويكسين كى سرٹيفيكيٹ ضرورى ہو ۔
اب ہم سوچ ليں كہ ہمارے كسى فتوى كى كيا قيمت ہوگى؟ خودہم بغير ويكسين كى سرٹيفيكيٹ كے حج، عمرہ يا كسى سفر پر روانہ نہيں ہو سكيں گے ۔
كيا ہم سمجہتے ہيں كہ ہم اس ويكسين كى حرمت كا فتوى دے سكتے ہيں؟ اور اگر بالفرض كوئى مفتى جرأت كركے اس ويكسين كو حرام ٹہہرادے تو اس كے فتوى كى كيا حيثيت ہوگى؟ كياوہ خود اس فتوے پر عمل كر سكے گا ؟يا اس كے گہر كے لوگ اس كى پيروى كريں گے؟ يا اس كے شاگرد اور متبعين كو اس كے فتوى سے كوئى دلچسپى ہوگى؟ اب تك ہمارى ايك جماعت فوٹو كو حرام كہ رہى ہے، ليكن عملا اس حرمت كا كوئى اثر نہيں، خود وہ لوگ جو اسے حرام كہ رہے ہيں وہ بہى بخوشى فوٹو كہنچوا رہے ہيں، اور ان كى تصويريں پورى دنيا ميں گردش كر رہى ہيں ۔
سچ يہ ہے كہ ہمارے پاس صرف اس ويكسين كو مباح كرنے كا اختيار ہے، ہم ميں سے كچہ لوگ "استحالہ" كى دليل سے اس كو جائز ٹہہرائيں گے، اور كچہ لوگ ضرورت وحاجت كى دليل پيش كريں گے، حاصل سب كا يہى ہوگا كہ يہ ويكسين مباح ہے، اور شايد كچہ لوگ مباح سے آگے اس كے واجب ہونے كا فتوى بہى ديديں ۔
سوال يہ ہے كہ ہم يہ كيوں نہيں سمجہتے كہ ان موضوعات سے ہمارا تعلق كليةً ختم كرديا گيا ہے؟ ہمارے فتوون كى حيثيت محض تفريح وتسليہ كى ہے، اگر ہم خاموشى اختيار كريں تو شايد اسلام اور مسلمانوں كے حق ميں زيادہ بہتر ہو، ہم يہ كيوں نہيں سمجہتے كہ ہم ہر سوال كا جواب دينے كے پابند نہيں؟ اور نہ ہى ہر سوال كا جواب دينا ہمارى ملت كے حق ميں مفيد ہے ؟