Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

Scholar Publishing House

کبھی یورپ ایسا بھی تھا

کبھی یورپ ایسا بھی تھا

 

یورپ پر ایک دور ایسا بھی گزرا کہ جس کا تصور کرنا بھی اسوقت محال ہے نشاۃ ثانیہ سے ایک ہزار سال قبل یورپ تہ بتہ تاریکی ہمہ جہت پسماندگی اور مذہبی انتہا پسندی کے عروج پر تھا ، تمام شعبہ حیات میں کلیسا کا زور تھا اس دور جہالت کے کچھ عجیب وغریب واقعات ایسےہیں کہ جنھیں پڑھ کر آپ تعجب میں پڑ جائیں گے اور یقین کرنا مشکل ہوجائے گا کہ کیا یہ وہی یورپ ہے جہاں ایک زمانے میں پانی سے غسل کرنا کفر اور مُسبّب امراض سمجھا جاتا تھا ، ہنگری کے ایک معروف مصنف اور صحافی سنڈور مورائی نے اپنی کتاب , اعترافات برجوازي ، میں لکھا ہے کہ یورپین ناقابل برداشت حد تک بدبودار ہوتے تھے وہ پانی سے نہانا کفر سمجھتے تھے ان کا خیال تھا کہ غسل نہ کرنے سے بیماریوں سے حفاظت ہوتی ہے ۔

فرانس کے بادشاہ لوئی XIV کے بارے میں روسی سلطنت کے سفیر کا کہنا ہے کہ اس کے جسم کی بدبو برّی جانوروں کے بدبو سے بڑھ کر تھی یہاں تک کہ ایک مرتبہ اس کی ایک لونڈی جس کا نام , دی مونٹسبام ، تھا اس نے اس کی بدبو سے بچنے کے لیے عطر کے حوض میں چھلانگ لگادیا تھا ، اسی بدترین بدبو سے چھٹکارا پانے کے لیے فرانس نے پرفیوم ایجاد کیا اسوقت وہ دنیا میں فرفیومز کا سب سے بڑا کاروباری ہے ۔

خود روسیوں کے بارے میں احمد بن فضلان نامی سیاح نے لکھا ہے کہ یہ لوگ اللہ کی سب سے گندی مخلوق ہیں جو قضاء حاجت تک کے لیے پانی استعمال نہیں کرتے ، روسی بادشاہ پیٹر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے سر عام دیوار پر پیشاب کیا کرتا تھا

علامہ تقی الدین ہلالی مراکشی نے مشہور امریکی مصنف جوزف مائک کیپ کی کتاب , مدينة المسلمين بإسبانيا ، کے ترجمہ میں کیسٹل کی ملکہ,ایزابیلا اول , جس نے اندلس میں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا اس کے بارے میں لکھا ہے کہ اس نے اپنی پوری زندگی میں صرف دوبار غسل کیا تھا اور اس نے اندلس کے تمام حمامات کو مسمار کردیا تھا ۔

اسپین کا بادشاہ فلیپ دوئم نے اپنے ملک میں غسل کرنا مطلق ممنوع قرار دیا تھا اس کی دوسری بیٹی ,ایزابیلا دوئم , نے ایک شہر کے حصار کے دوران قسم کھائی تھی کہ وہ اپنے انڈر گارمنٹس اسوقت تک تبدیل نہیں کرے گی جب تک وہ شہر فتح نہ کرلے ، تین سال تک حصار جاری رہا یہاں تک کہ اسی دوران اسی کے سبب اس کی موت ہوگئی ۔

یورپ میں جب بھی وبا پھیلتی تھی تو وہاں کی آبادی کا کبھی نصف تو کبھی ایک تہائی حصے کا صفایا کردیتی تھی ، اس زمانے میں یورپ کے بڑے بڑے شہر مثلا لندن اور پیرس کی آبادی بمشکل تیس سے چالیس ہزار ہوا کرتی تھی جب کہ مسلم شہروں کی آبادی دس لاکھ سے متجاوز ہوا کرتی تھی ۔

اسی زمانے میں جب کبھی ریڈانڈینس یورپی جنگجوؤں سے ملتے تھے تو اپنی ناک پر گلاب کا پھول رکھ لیا کرتے تھے تاکہ وہ ان کی بدبو سے محفوظ رہ سکیں ۔

آج کا یورپ قدیم یورپ سے بالکل مختلف ہے ، آج کا یورپ انتہائی صاف ستھرا ہے اس کے بعض ممالک اسوقت عیش وآرام ، تعلیم ، خوشحالی ، مذہبی آزادی ، پریس کی آزادی ، آزادی رائے ، شفافیت ، حقوق انسانی ، سماجی مساوات اور ماحولیات کے اعتبار سے پوری دنیا میں مثالی سمجھے جاتے ہیں ،جب کہ قدیم یورپ میں نہانے کے لیے پانی کا استعمال تک کفر سمجھا جاتا تھا اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس سے صحت کمزور ہوجاتی ہے اور جو بچے پانی زیادہ استعمال کرتے تھے ان کے بارے ان کا خیال تھا کہ اس سے بدن کمزور ہوجاتا ہے اس زمانے میں یورپین صرف دو موقعوں پر غسل کیا کرتے تھے ایک شادی اور دوسرے بیماری ۔

جب کہ اس کے برعکس اسی دور میں عرب صاف ستھرے پوشاک پہنتے تھے یاقوت زمرد اور مرجان جیسے قیمتی پتھروں کو بطور زینت استعمال کیا کرتے تھے بتایا جاتا ہے کہ جس وقت کلیسا پانی سے غسل کو کفر اور گناہ سمجھتا تھا اسی زمانے میں شہر قرطبہ میں تین سو خوبصورت حمامات موجود تھے ۔

فرانسیسی مورخ ڈریبارڈ کا کہنا ہے کہ اپنی عام زندگی میں عیش وآرام کی چیزوں کے لیے ہم عربوں کے احسانمند ہیں ، پورپین کےبرعکس عربوں نے ہمیں سکھلایا کہ کیسے ہمیں اپنی جسمانی نظافت کا خیال رکھنا چاہئے ۔

( یہ مضمون عربی سے مستفاد ہے )

بقلم : محمد شاہد خان

دوحہ قطر