Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

Scholar Publishing House

نئی تعلیمی پالیسی (NEP)ایک جائزہ

نئی تعلیمی پالیسی (NEP)ایک جائزہ

 

ایک محاورہ ہے کہ درخت اپنے پھل سے اور انسان اپنے قول وفعل سے پہچانا جاتا ہے اس لیے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ انسانی ذہن وفکر کے دریچے میں جھانک کر کسی بھی قوم کے تعلیمی ڈھانچے کو دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ زمین میں جیسی تخم ریزی ہوگی کاشت بھی اسی کے مطابق تیار ہوگی دراصل کسی بھی قوم کی ترقی کا اصل راز اس کے بہتر نظام تعلیم وتربیت میں مضمر ہوتا ہے اگر آج دنیا میں مغرب کا غلغلہ اور ہر جگہ اس کا بول بالا ہے تو اس کی پشت پر اس کا بہتر نظام تعلیم وتربیت اور تحقیقاتی اداروں کا قیام ہے ۔

ہمارے ملک ہندستان میں آزادی کے بعد پہلی بار 1966 میں کوٹھاری کمیشن نے تعلیمی پالیسی کو پیش کیاتھا اس کے بعد 1986 میں دوسری بار اور پھر 1992 تیسری بار اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں  تھیں اور اب 34 سالوں کے بعد 29 جولائی 2020 کو بی جے پی سرکار نے ڈاکٹر کستوری رنجن کے زیر نگرانی تیار کی گئی نئی تعلیمی پالیسی کو ملک کے سامنے پیش کیا ہے ، ملک کے تعلیمی نظام پر آنے والے دنوں میں اس پالیسی کا بڑا گہرا اثر پڑے گا اس لیے اس پالیسی کی خوبیوں اور خامیوں کا ایک اجمالی جائزہ لینا ضروری ہے ۔

خوبیاں

۔۔۔۔۔۔۔

۱- اس پالیسی کے آنے کے بعد 10+ 2 نظام تعلیم کا خاتمہ ہوجائے گا 10+ 2 فارمولے کے مطابق کسی بھی بچے کی ابتدائی تعلیم چھ سال کی عمر سے شروع ہوکر دس سال تک جاری رہتی تھی پھر اس کے بعد دو سالہ ہائر سکنڈری کا کورس ہوتا تھا اس طرح 18 سال کی عمر تک بچہ اپنی ابتدائی اور سکنڈری لیول تک کی تعلیم مکمل کرلیتا تھا لیکن اس کی جگہ اب جو نیا فارمولہ پیش کیا گیا ہے اسے

                     5+3+3+4

کا نام دیا گیا ہے جس کے مطابق

5 =(age 3-8) Foundational

3= (age 8-11)Preparatory

3= (age 11-14) Middle

4=(age 14-18)Secondary

یعنی کسی بھی بچے کی ابتدائی تعلیم تین سال کی عمر سے شروع ہوکر مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اٹھارہ سال کی عمر تک مکمل ہوجائے گی ۔

2- نئی پالیسی ملٹی انٹری ، اکزٹ اور کریڈٹ سسٹم کی حامل ہے

جس کا مطلب یہ ہے کہ اب کسی ایک اسٹریم ( مضمون ) کو اختیار کرنا مجبوری نہیں ہوگی بلکہ کوئی بھی طالبعلم جس وقت بھی چاہے اپنا سبجیکٹ تبدیل کرسکتا ہے اور اپنا من پسند سبجیکٹ اختیار کرسکتا ہے مثلا اگر سائنس کا طالبعلم آرٹ میں جانا چاہے گا یا کامرس پڑھنا چاہے گا تو اس کے لیے اب ایسا کرنا ناممکن نہیں ہوگا اسی طرح نمبرات دینے کے بجائے اسے کریڈٹ دیا جائے گا جیسا کہ غیر ملکی تعلیمی اداروں میں رائج ہے ۔

3- اب انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے مطابق تعلیمی سرٹیفکٹ دی جائے گی قدیم نظام کے مطابق گریجویشن کے لیے تین سال پڑھنا ضروری ہوتا تھا اس کے بعد ہی طالبعلم ڈگری کا مستحق قرار پاتا تھا لیکن نئے نظام کے مطابق کسی بھی طالبعلم کو ایک سال مکمل ہونے پر سرٹیفکٹ ،  دوسال مکمل ہونے پر ڈپلومہ ، تین سال مکمل ہونے پر بیچلر اور چار سال مکمل ہونے پر ریسرچ کی ڈگری دی جائے گی۔

4- نئی تعلیمی پالیسی میں پروفیشنل کورسز ( پیشہ وارانہ تعلیم ) کے ساتھ ساتھ سوشل سائنسز (Social sciences )ہیومانٹیز (Humanities)اور لبرل آرٹ(Liberal Art )پر زیادہ توجہ دی گئی ہے تاکہ اسٹوڈنٹس کے اندر تنقیدی اور تخلیقی صلاحیت  (critical and innovative thinking )پیدا ہوسکے اور وہ مقاصد تعلیم اور اس کے فلسفہ کو سمجھ سکیں ۔

5- نئی تعلیمی پالیسی مختلف پیشوں کے احترام (Dignity of labour ) کو خطاب کرتی ہے تاکہ سماج کے اندر پیشوں کی بنیاد پر جو فرق واقع ہوگیا ہے اسے مٹایا جاسکے ۔

6- اسی پالیسی میں کل قومی آمدنی (GDP) کا چھ فیصد خرچ کرنے کی بات کہی گئی ہے ۔

7- اس پالیسی کے مطابق اب ہندستان میں باہر کی یونیورسٹیاں اپنا کیمپس کھول سکتی ہیں ۔

خامیاں

۔۔۔۔۔۔۔۔

1- اس پالیسی کو قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اس میں سے جتنا چاہے لے سکتی ہے اور جتنا چاہے چھوڑ سکتی ہے ویسے بھی 2040 تک اس پالیسی کے نفاذ کی بات کہی گئی ہے جو کہ ایک طویل اور تھکا دینے والی مدت ہے ۔

2- یہ پالیسی انفراسٹکچر سے کوئی بحث نہیں کرتی جب کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے دعوی کیا ہے کہ وہ نئی پالیسی کے ذریعہ گلوبل سٹیزن پیدا کریں گے ظاہر ہے کہ یہ مقصد بغیر بہتر انفراسٹکچر کے حاصل نہیں ہوسکتا ، 1966 میں جب کوٹھاری کمیشن نے پہلی بار تعلیمی پالیسی کو پیش کیا تھا اسوقت بھی جی ڈی پی (GDP)کا چھ فیصد خرچ کرنے کی بات کہی گئی تھی اور اب اتنے برسوں کے بعد 2020 میں بھی وہی بات دہرائی جارہی ہے جب کہ اس سطح کو اور بلند ہونا چاہئے تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے ستہتر سالوں کے بعد بھی جی ڈی پی کا لگ بھگ 0.5 فیصد ہی تعلیم پر خرچ کیا جارہا ہے طرفہ تماشا یہ ہے کہ قومی بجٹ کا جتنا فیصد UPA سرکار خرچ کرتی تھی NDA کی سرکار اس سطح کو بھی برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہے ، ابھی سال رواں کے ماہ فروری میں تعلیم کا جو بجٹ پیش کیا گیا تھا وہ 99300 کروڑ تھا اس بجٹ کو اگر پرائمری سے لیکر پلس ٹو تک بچوں پر تقسیم کیا جائے تو ایک بچے پر 2.35 (دو روپیہ پینتیس پیسہ ) کا خرچ آتا ہے جو کہ ماہانہ خرچ کے اعتبار اکہتر روپیہ اور سالانہ خرچ کے اعتبار 852 روپیہ ہے اسی طرح ہائر ایجوکیشن میں پلس ٹو کے بعد سے لے کر پی ایچ ڈی تک روزانہ کا خرچ 28.69 پیسہ ہے جو ماہانہ خرچ کے اعتبار سے 860 روپیہ اور سالانہ خرچ کے اعتبار سے 10328 روپیہ ہے جب کہ اسی بجٹ میں بچوں کی تعلیم ، اسٹاف کی تنخواہ ، اصلاح ومرمت کا کام اور نیا انفراسٹکچر اور نئے اسکولوں کا قیام سب کچھ شامل ہے خیال رہے کہ اسوقت دنیا میں بچوں کی سب سے زیادہ تعداد بھارت میں ہے ، اور پانچ سال کی عمر سے لے کر چوبیس سال تک کے بچوں کی تعداد تقریبا پچاس کروڑ ہے اب آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ اتنے کمزور بجٹ کے ساتھ اتنا سندر سپنا کیسے پورا ہوسکتا ہے اس لئے اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ کہیں یہ سندر سپنا صرف کاغذات کی زینت بن کر نہ رہ جائے ۔

3- یہ پالیسی ابتدائی تعلیم کو مادری اور علاقائی زبانوں میں پیش کرنے کی بات کرتی ہے اس سے اردو اور انگریزی زبان کو مستثنی رکھا گیا ہے جب کہ انگریزی زبان کے علاوہ کسی بھی دوسری زبان میں مطلوبہ معیاری سلیبس (Syllabus )موجود نہیں ہے اس لیے انگریزی زبان کو نظر انداز کرنا ایک سنگین غلطی ہوگی ۔

4- اس پالیسی کے مطابق سکنڈری میں غیر ملکی زبانوں کو سیکھنے کا آپشن ہوگا جس میں کورین جاپانی فرنچ  تھائی اسپینش پرتگیز جیسی زبانیں شامل ہیں لیکن ان میں عربی زبان کو شامل نہیں کیاگیا ہے جب کہ عربی زبان لگ بھگ تیس ملکوں میں سرکاری زبان کے طور بولی اور سمجھی جاتی ہے اقوام متحدہ میں بھی وہ منظور شدہ رابطہ کی زبان ہے خلیجی ممالک سے بھی ہمارے بڑے تجارتی تعلقات قائم ہیں جہاں اس زبان کی ضرورت پڑتی ہے اس کے باوجود اسے نظر انداز کرنا سوائے تعصب کے اور کچھ نہیں ۔

5- نئی پالیسی کے مطابق اس نظام کو چلانے کے لیے بہت ساری ایجنسیاں بنائی جائیں گی اور تنظیمی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے گا اس لیے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہHighly regulated and poorly funded پالیسی ہے ۔

6- یہ پالیسی بھارتی کلچر کو بڑھاوا دینے کی بات کرتی ہے جس کی آڑ میں نصاب تعلیم کا بھگواکرن کیے جانے کے قوی امکانات ہیں ۔

7- اس پالیسی میں کہیں پر بھی سیکولرزم کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ہے جب کہ سابقہ تعلیمی پالیسی میں اس لفظ کا بار بار استعمال کیا گیا تھا ۔

8 ۔ یہ پالیسی کوالٹی آف ایجوکیشن (Quality of education )کی بات نہیں کرتی بلکہ یہ نجی کاری (Privatization )  کو بڑھاوا دیتی ہے ۔

9- یہ پالیسی سب کے لیے یکساں تعلیمی مواقع فراہم کرنے کی بات کرتی ہے جب کہ اس کے لیے مطلوبہ انفراسٹکچر موجود نہیں ہے اور جو موجود ہے اس میں ایک طرف آنگن باڑی کے اسکول ہیں جہاں غریبوں کے علاوہ کوئی اپنا بچہ بھیجنا نہیں چاہتا تو دوسری طرف پرائیویٹ اسکول ہیں جہاں امیروں کے علاوہ کسی اور کا بچہ داخلہ پا نہیں سکتا

جب کہ دنیا کے بعض ممالک ,,سب کے لیے تعلیم کے یکساں مواقع ,, پیش کرنے کی بہترین مثال پیش کرتے ہیں مثال کے طور پر فن لینڈ کو لے لیجئے وہاں پرائیویٹ اسکولوں کا وجود نہیں ہے اس لیے وہاں کے سارے بچے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ثانویہ تک کی تعلیم بالکل مفت پاتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ تعلیمی معیار کے اعتبار سے وہ دنیا میں پہلے مقام پر فائز ہے ۔

10 ۔ اس پالیسی کو بنانے میں ریاستوں سے کوئی صلاح ومشورہ نہیں لیا گیا جب کہ بھارت یونین آف دی اسٹیٹس ہے اور اسے امریکہ اور کینڈا کی طرح ایک فیڈرل سسٹم پر استوار کیا گیا ہے لیکن اس معاملے میں بھی مرکز نے ریاستوں کو نظر انداز کیا ہے جس سے مرکز کی منشا صاف نظر آتی ہے کہ وہ ریاستوں کو کمزور کرنا چاہتی ہے جو کہ فیڈرل نظام کی روح کے منافی ہے ۔

حکومت نے جو تعلیمی پالیسی پیش کی ہے اس میں بہت ساری خوبیاں ہیں بشرطیکہ حکومت ان مقاصد کے حصول میں سنجیدہ ہو اور اس کے لیے سالانہ بجٹ میں اضافہ کرے اور انفراسٹکچر کو بہتر کرے  لیکن اس میں بہت ساری خامیاں ہیں اور کچھ ایسے چوردروازے ہیں جو ہندستان جیسے کثیر لسانی وثقافتی ملک اور اس کے سیکولر اور جمہوری اقدار کے لیے سخت نقصاندہ ہیں ۔

تجزیہ نگار : محمد شاہد خان

  دوحہ قطر