Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

Scholar Publishing House

حديث كى درجه بندى

حديث كى درجه بندى

بسم اللّه الرحمن الرحيم 

تمہيد:

جب كسى ہندو سے كہا جاتا ہے كه اجودهيا رام كى جائے پيدائش ہے تو اس سرزمين كى محبت وعقيدت سے اس كا دل لبريز ہوجاتا ہے، اور وه وہاں عبادت كے مراسم ادا كرنے كے لئے بيچين ہوجاتا ہے، كيونكه اسے وه ايك مذہبى مسئله سمجهتا ہے، وه يه بهول جاتا ہے كه مذہبى مسئله ہونے سے پہلے يه ايك تاريخى مسئله ہے، يعنى اس كى تحقيق ہونى چاہئے كه كيا اجودهيا سے رام كا تعلق ظاہر كرنے كے مستند تاريخى دلائل موجود ہيں؟

قاہره ميں جامع الازہر كے جوار ميں جامع الحسين ہے، جہاں حضرت حسين رضي الله عنه كے سر كا  مدفن ہے، شيعه زائرين فرط عقيدت سے اس مصنوعى قبر كا طواف كرتے ہيں، كاشكه وه اس سوال كا جواب جاننے  كى كوشش كرتے كه حضرت حسين كى شہادت كربلا ميں ہوئى تو سر يہاں لاكر كيوں دفن كيا گيا؟ يہى نہيں بلكه شيعوں كے سيكڑوں دعوے تاريخى ثبوت سے خالى ہيں ۔

امام سفيان ثورى (ت 161ه) ثور بن عبد منات كى طرف منسوب ہيں، ہندوستان كے بعض تذكروں ميں موجود ہے كه ان كو ثورى اس لئے كہا جاتا ہے كه ايك بار مسجد ميں داخل ہوتے ہوئے انہوں نے پہلے الٹا پاؤں ركها، غيب سے آواز آئى "يا ثور" (يعنى اے بيل)، اس وقت سے ان كا لقب "ثورى" ہوگيا، ايك بار ميں نے ندوه كے مہمان خانه ميں اس قصه كا ذكر كيا اور اس پر تنقيد كى، ايك سينير استاد فرمانے لگے كه ہندوستان كے ايك مشہور بزرگ نے بهى اپنى كتاب ميں اس واقعه كا ذكر كيا ہے ۔

سوال ہے كه اتنے معتبر بزرگ ايسى بے سر وپا كيوں دہراتے رہتے ہيں؟اس كا جواب يه ہے كه يه حضرات اسے ادب كى تعليم كا ذريعه تصور كرتے ہيں، حالانكه ادب كى تعليم سے پہلے يه واقعه ايك تاريخ ہے، اور اسے تاريخى معيار پر جاننے كى ضرورت ہے نه كه اخلاق وادب كے معيار پر ۔

 

تاريخ كى تعريف:

        انسان كے تعلق سے ماضى كے مطالعه كو تاريخ كہتے ہيں،  عربى زبان ميں تاريخ كے لئے دوسرا لفظ خبر كا مستعمل ہے، قرآن كريم ميں تاريخ كو ايام،  ذكر، تذكير اور تذكره بهى كہا گيا ہے،  حافظ شمس الدين سخاوى نے تاريخ كى تعريف يوں كى ہے: ""إنَّه فنٌّ يُبحث فيه عن وقائع الزمان من حيث التعيين والتوقيف؛ بل عمَّا كانَ في العالم" ۔

        ماضى كے مطالعه كے معنى  واقعات واخبار سے واقفيت پيدا كرنا، ان كے علل واسباب كو سمجهنا ، اور ان كى تحقيق وتوثيق كرنا ہے،  فلسفۂ تاريخ كا امام ابن خلدون كہتا ہے: "إنّ التاريخ في باطنه هو النظر والتحقيق وتعليل الكائنات ومبادئها، وعلم بكيفيّات الوقائع وأسبابها".

 

تاريخ ايك جنس ہے:

        تاريخ ايك جنس ہے، جس كے انواع ميں ملوك وسلاطين كے حالات، اقوام وملل كى سرگزشتيں، افراد وشخصيات كے سير وسوانح، ملفوظات واقوال، اور علوم وفنون كا ارتقاء داخل ہيں، اسى لئے ابن خلدون كہتا ہے: "(التاريخ)خبرٌ عن الاجتماع الإنسانيِّ الذي هو عُمْران العالم، وما يَعرِض لذلك العمرانِ من الأحوال؛ مثل التوحُّش والتآنس، والعصبيَّات، وأصناف التقلُّبات للبشر بعضهم على بعض، وما ينشأ عن ذلك من المُلك والدول ومراتبها، وما ينتحله البشر بأعمالهم ومساعيهم من الكسب والمعايش، والعلوم والصنائع، وسائر ما يحدث من ذلك العمران من الأحوال" ۔

        امام بخارى نے  اپنى كتب رجال كا نام تاريخ ركها ہے: التاريخ الكبير، التاريخ الأوسط، التاريخ الصغير، رجال كى كتابوں كو تاريخ واخبار كے نام سے موسوم كرنا  محدثين كى عام  سنت ہے، اس سے بهى ثابت ہوتا ہے كه تاريخ ايك جنس ہے جو بہت سى انواع پر مشتمل ہے ۔

 

كيا حديث تاريخ ہے:

مندرجه بالا تشريح سے يه بات واضح ہوگئى كه تاريخ جنس ہے، اور حديث اس كى ايك نوع ہے، حديث كے تاريخ ہونے كى تشريح درج ذيل ہے:

صحابۂ كرام رضي الله عنہم نے نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كو وضو كرتے ہوئے اور نماز پڑهتے ہوئے ديكها، انہوں نے سنت سمجهكر ان اعمال ميں آپ كى پيروى كى، انہوں نے آپ كے ارشادات سنے اور ان كو اپنى زندگى كا حصه بنايا، آپ كے غزوات وسرايا كا مشاہده كيا، آپ كے شمائل كا مطالعه كيا، آپ كى سيرت كا تتبع كيا، ان تفصيلات كے جاننے سے ان كے دلوں ميں آپ كى محبت بڑهى، اور قرآن كريم كى تفسير اور اس دين كى تشريح ميں ان سے مدد ملى ۔

صحابۂ كرام رضي الله عنہم كے لئے آپ كے اعمال واحوال واوصاف سنن، شمائل اور سير ومغازى كے زمرے ميں تهے، جب انہوں نے دوسرى نسلوں تك يه تفصيليں منتقل كيں، اور ان لوگوں نے بعد كے لوگوں تك ان كو پہنچايا، تو يہى چيزيں حديث يعنى رپورٹ بن گئيں، حديث كے دو اہم جزء ہيں: ايك سند اور دوسرے متن، صحابۂ كرام كے لئے اہميت متن كى تهى، ليكن ان كے شاگردوں اور شاگردوں كے شاگردوں كے لئے متن سے پہلے سند كى اہميت تهى، يعنى صحابۂ كرام كے بعد سنن، سير، مغازى وشمائل تاريخ بن گئے، امام مالك سے اگر كوئى يه كہے كه نبى اكرم صلى الله عليه وسلم ظہر سے پہلے چار ركعت سنت پڑهتے تهے تو ان كا پہلا سوال يه ہوگا كه اس كى سند كيا ہے؟

محدثين نے تاريخى ضبط وتوثيق كو غير معمولى ترقى دى، اور  ان كى كوششوں كے نتيجه ميں اصول حديث، رجال،  وعلل وغيره كے حيرت انگيز علوم وجود ميں آئے ۔

 

حديث اور تاريخ ميں فرق:

حديث اور تاريخ ميں وہى فرق ہے جو نوع اور جنس كے درميان ہوتا ہے،  ان دونوں ميں نسبت عموم وخصوص مطلق كى ہے، يعنى ہر حديث تاريخ ہے، ليكن ہر تاريخ حديث نہيں، كچه محدثين خبر كو حديث كے معنى ميں استعمال كرتے ہيں، اور كچه خبر كو تاريخ كے معنى ميں، اور حديث كو اس كى ايك نوع گردانتے ہيں، حافظ ابن حجر نزهة النظر ميں لكهتے ہيں: " وهو (الخبر) عندَ عُلَماءِ هذا الفنِّ مرادفٌ للحَديثِ. وقيلَ: الحَديثُ: ما جاءَ عَنِ النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وعلى آلهِ وسلَّمَ، والخَبَرُ ما جاءَ عن غيِره، ومِنْ ثَمَّ قيلَ لمَن يشتغلُ بالتَّواريخِ وما شاكَلَها الإخبارِيُّ، ولمن يشتغلُ بالسُّنَّةِ النبويَّةِ: المُحَدِّثَ، وقيل: بيْنهما عُمومٌ وخُصوصٌ مُطْلقٌ، فكلُّ حَديثٍ خبرٌ من غيرِ عَكْسٍ. وعبَّرْتُ هنابالخبَرِ ليكونَ أشملَ ۔

ابن حجر نے اصول حديث ميں خبر كا لفظ اسى لئے استعمال كيا كه حديث اور تاريخ كے اصول ايك جيسے ہيں، فرق ان اصول كى تطبيق كا ہے، حفاظ محدثين ان اصول كى تطبيق ميں غير معمولى سختى برتتے ہيں ۔

 

حديث كى نوعى خصوصيات:

جنس اور نوع كى اپنى اپنى خصوصيات ہوتى ہيں، نوع كے اندر جنس كى خصوصيات كے ساته اپنى نوعى خصوصيات بهى پائى جائيں گى، كهانا ايك جنس ہے، اس كے انواع ميں دال، سبزى، چٹنى، اور بريانى وغيره ہيں، بريانى كهانا ہے، ليكن وه كهانے كى دوسرى انواع سے ممتاز ہے،بريانى كے وه اوصاف جو اسے كهانے كى دوسرى اصناف سے ممتاز كرتے ہيں   انہيں نوعى خصوصيات كہا جاتا ہے ۔

        اسى طرح حديث كى نوعى خصوصيات ہيں، حديث كا موضوع نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كے اقوال، افعال، صفات واحوال ہيں، اس كى توثيق كے شرائط بهى سخت ہيں، اگر ان شرائط كو تاريخ كى عام كتابوں پر منطبق كيا جائے تو تاريخ كا اكثر حصه پايۂ اعتبار سے ساقط ہوجائے گا، اس ميں كوئى شك نہيں كه تاريخ كى كوئى كتاب صحت ميں  صحيح بخارى اور صحيح مسلم كے مقام كو نہيں پہنچ سكتى، بلكه سچ يه ہے كه  تاريخ كى كتابيں سنن ابى داود، سنن ترمذى، سنن نسائى وغيره سے بهى فروتر ہيں ۔

 

كيا حديث كو تاريخ كہنا اس كى توہين ہے؟

        كيا حديث كو تاريخ كہنا حديث كى توہين ہے؟ كيا اس سے صحيح بخارى كو تاريخ طبرى كى سطح پر لانا لازم  آتا ہے؟ اور كيا اس سے تاريخ طبرى كو صحيح بخارى كے درجه پر اٹهانا لازم  آتا ہے؟

        اس قسم كے سوالات كسى طالب علم كو زيب نہيں ديتے،  پهر بهى لوگ ايسى باتيں كرتے رہتے ہيں، ان كے جواب كے لئے صرف يه عرض ہے كه كيا نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كو بشر كہنا آپ كى توہين ہے؟ كيا اس سے آپ كو ابو جہل كى سطح پر لانا لازم آتا ہے؟ كيا اس سے ابو جہل كو آپ كے مقام پر پہچانا لازم آتا ہے؟ كيا مكۂ مكرمه كو شہر كہنا اس كى توہين ہے؟ كيا يه كہنے سے دنيا كے معمولى اور غير معمولى شہر ام القرى كے مساوى ہو گئے؟

        كيا گهوڑے كو حيوان كہنا اس كى توہين ہے؟ كيا اس سے اس كو ايك چوہے كى سطح پر لانا لازم آتا ہے؟ اور كيا اس سے چوہے كو ايك گهوڑے كى سطح پر لانا لازم آتا ہے؟ كيا بريانى كو كهانا كہنا اس كى توہين ہے؟ كيا اس سے بريانى دال، ساگ اور چٹنى كے برابر ہوگئى؟

 

حديث كو تاريخ سمجهنے كا فائده:

        يہاں ايك سوال يه پيدا ہوگا كه آخر حديث كو تاريخ ثابت كرنا كا فائده كيا ہے؟ اس كا جواب درج ذيل ہے:

اہل علم كا اتفاق ہے كه "الحكم على الشيء فرع عن تصوره"، كسى چيز كا صحيح تعارف دو چيزوں سے ہوتا ہے: ايك يه كه اس كى جنس قريب معلوم كى جائے، اور دوسرے اس كى وه صفات جانى جائيں جو اسے دوسرى انواع سے مميز كرتى ہيں، اگر جنسى خصوصيات نگاہوں سے اوجهل ہوں تو كسى چيز كا قابل اعتماد علم نہيں ہو سكتا، جس طرح نوعى خصوصيات سے نا واقفيت انسان كو صحيح معرفت سے دور كرديتى ہے ۔

مسلمانوں كے اندر موضوع، واہى اور منكر حديثيں كيوں رائج ہوگئيں؟ كيونكه جب يه حديثيں لوگوں كو سنائى جاتيں تو حديث كے لفظ كا تقدس انہيں ان كو ماننے پر مجبور كرديتا، بہت سے علماء بهى اسى مرض كا شكار ہو گئے، جب آپ سے كوئى كہتا ہے كه عشاء كى نماز سے پہلے چار ركعت سنت غير مؤكده ہے تو آپ فوراً اس پر عمل پيرا ہو جاتے ہيں، حالانكه آپ كو معلوم ہونا چاہئے تها كه سنت سے پہلے يه ايك تاريخى مسئله ہے، آپ كو تحقيق كرنى چاہئے تهى كه كيا واقعتا تاريخى لحاظ سے يه بات پايۂ ثبوت كو پہنچتى ہے كه نبى اكرم صلى الله عليه وسلم نے كبهى عشاء كى نماز سے پہلے چار ركعت پڑهى، يا اس كى ترغيب دى؟

يه ايك مثال ہے، اور اس طرح كى سيكڑوں مثاليں ہيں، جب آپ كے سامنے كوئى حديث آئے تو اس كى نوعى خصوصيت سے پہلے اس كى جنسى خصوصيت معلوم كريں، يعنى كيا تاريخى اعتبار سے وه حديث مستند ہے ۔

جو بات يہاں حديث كے بارے ميں كہى گئى ہے، وہى بات بزرگوں كى كرامات اور ان كے ملفوظات كے لئے بهى سچ ہے، جب آپ سے كہا جائے كه فلاں بزرگ ہواؤں ميں اڑتے تهے تو آپ عقيدت ومحبت سے سر نه جهكائيں بلكه يه سوال كريں كه اس كى تاريخى سند كيا ہے؟ اور جب آپ سے بزرگوں كے ملفوظات نقل كئے جائيں تو اتنا كافى نہيں كه وه ملفوظ حكيمانه ہے، بلكه كسى كى طرف اس ملفوظ كى نسبت اسے تاريخ بناديتى ہے، آپ كا فرض ہے كه ايك ديانتدار مؤرخ كى طرح اس كى تحقيق كريں ۔

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى

آكسفورڈ