Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

تعارف

اسرار الحق مجاز

اسرار الحق مجاز

اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں

یہ شہر کی رات میں ناشاد و ناکارہ پھروں

جگمگاتی دوڑتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں

غیر کی بستی ہے کب تک در بدر مارا پھروں


کیا کیا ہوا ہے ہم سے جنوں میں نہ پوچھیے

الجھے کبھی زمیں سے کبھی آسماں سے ہم

ٹھکرا دئیے ہیں عقل و خرد کے صنم کدے

گھبرا چکے تھے کشمکش امتحاں سے ہم


جلال آتش و برقِ سحاب پیدا کر

اجل بھی کانپ اٹھے وہ شباب پیدا کر

ترے خرام میں ہے زلزلوں کا راز نہاں

ہر ایک گام پر اک انقلاب پیدا کر


ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا


یہ آنا کوئی آنا ہے کہ بس رسماً چلے آئے

یہ ملنا خاک ملنا ہے کہ دل سے دل نہیں ملتا


پھر مری آنکھ ہو گئی نمناک

پھر کسی نے مزاج پوچھا ہے


عشق کا ذوق نظارہ مفت میں بدنام ہے

حسن خود بے تاب ہے جلوہ دکھانے کے لیے


یہ میرے عشق کی مجبوریاں معاذ اللہ

تمہارا راز تمہیں سے چھپا رہا ہوں میں


ہندو چلا گیا نہ مسلماں چلا گیا

انساں کی جستجو میں اک انساں چلا گیا


آپ کی مخمور آنکھوں کی قسم

میری مے خواری ابھی تک راز ہے


یا تو کسی کو جرأت دیدار ہی نہ ہو

یا پھر مری نگاہ سے دیکھا کرے کوئی


وقت کی سعیٔ مسلسل کارگر ہوتی گئی

زندگی لحظہ بہ لحظہ مختصر ہوتی گئی


حجاب فتنہ پرور اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا

خود اپنے حسن کو پردہ بنالیتی تو اچھا تھا


خوب پہچان لو اسرار ہوں میں

جنس الفت کا طلب گار ہوں میں


روئیں نہ ابھی اہل نظر حال پہ میرے

ہونا ہے ابھی مجھ کو خراب اور زیادہ


دفن کر سکتا ہوں سینے میں تمہارے راز کو

اور تم چاہو تو افسانہ بنا سکتا ہوں میں


یہ آنا کوئی آنا ہے کہ بس رسماً چلے آئے

یہ ملنا خاک ملنا ہے کہ دل سے دل نہیں ملتا


بخشی ہیں ہم کو عشق نے وہ جرأتیں مجاز

ڈرتے نہیں سیاست اہل جہاں سے ہم


مجھ کو یہ آرزو وہ اٹھائیں نقاب خود

ان کو یہ انتظار تقاضا کرے کوئی


چھپ گئے وہ ساز ہستی چھیڑ کر

اب تو بس آواز ہی آواز ہے


بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا

تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے


کچھ تمہاری نگاہ کافر تھی

کچھ مجھے بھی خراب ہونا تھا


تمہیں تو ہو جسے کہتی ہے ناخدا دنیا

بچا سکو تو بچا لو کہ ڈوبتا ہوں میں


کلیجہ پھنک رہا ہے اور زباں کہنے سے عاری ہے

بتاؤں کیا تمہیں کیا چیز یہ سرمایہ داری ہے


یہ وہ آندھی ہے جس کی رو میں مفلس کا نشیمن ہے

یہ وہ بجلی ہے جس کی زد میں ہر دہقاں کا خرمن ہے


گرجتی گونجتی یہ آج بھی میداں میں آتی ہے

مگر بد مست ہے ہر ہر قدم پر لڑکھڑاتی ہے


مبارک دوستو لبریز ہے اب اس کا پیمانہ

اٹھاؤ آندھیاں کمزور ہے بنیاد کاشانہ