آل احمد سرور 9 ستمبر 1911ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے ،ان کا گھرانہ مذہبی تھا ،ان کا سلسلہ نسب حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر سے جا ملتا ہے، ان کے خاندانی پیر آل احمد مارہروی تھے انہیں کی رعایت سے ان کا نام آل احمد رکھا گیا، ان کے والد کا نام کرم محمد تھا وہ محکمۂ ڈاک میں ملازم تھے اور ان کا تبادلہ شہر در شہر ہوتا رہتا تھا، ان کی ابتدائی تعلیم شروع تو بدایوں میں ہوئی لیکن بنارس،گونڈہ،ہوتے ہوئے 1928 میں غازی پور میں ہائی اسکول پاس کر پائے ، بچپن سے ہی مطالعہ کے شوقین تھے،کم عمری میں شعر وشاعری کرنے لگے تھے، ابتدائے شاعری میں راشد تخلص اختیار کیا اس کے بعد سرور کرلیا،جولائی 1928 میں سینٹ جانسن کالج آگرہ میں داخلہ لیا، 1932 میں بی ایس سی پاس کیا، آگرہ میں اس وقت معین احسن ملال بعد ازاں جذبی ، اسرارالحق مجاز ، حامدحسین قادری سے قربت رہی، اسی کالج کے میگزین میں ان کی پہلی غزل شائع ہوئی، اسی زمانے میں آگرہ میں مانی جائسی ،فانی بدایونی،میکش ، سیماب اکبرآبادی،مخمور اکبرآبادی بھی آگرہ میں ہی تھے جو مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے، ان کی صحبت بھی ان کو حاصل رہی ، وہ بشپ فرنچ ہوسٹل کی میگزین کے ایڈیٹر بنائے گئے اور کالج کی انجمن اردوئے معلیٰ کے سکریٹری بھی رہے، جب ان کے والد کا تبادلہ علی گڑھ میں ہوا تو انہوں نے مسلم یونیورسٹی میں انگریزی ادب میں ایم اے میں داخلہ لیا، علی گڑھ کے ادبی ماحول نے ان کے فن کو اور نکھارا ،شعبہ انگریزی کے استاد خواجہ منظور حسین نے ان کو علی گڑھ میگزین کا ایڈیٹر مقرر کیا اور شعبہ انگریزی کی انجمن رائے لٹریری سوسائٹی کے سکریٹری منتخب ہوئے، ایم ایے کے دوسرے سال طلبہ یونین کے نائب صدر منتخب ہوئے اور ایم اے میں اول ڈویژن سے کامیابی بھی حاصل کی،1934ء میں شعبہ انگریزی میں ان کا تقرر ہوگیا، 1936ء میں ڈاکٹر ذاکر حسین کے اصرار پر اردو سے بھی ماسٹرز کیا اس کے بعد شعبہ اردو کے جونئیر لکچرر متعین ہوئے ، احسن مارہروی کی سبکدوشی کے بعد سینئر لکچرر بنادئیے گئے، 1935ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ "سلسبیل" شائع ہوا اس کا پیش لفظ رشیداحمد صدیقی نے لکھا، 1936ء میں انہوں نے رشید احمد صدیقی کے ساتھ ملکر رسالہ "سہیل" کیلئے ایک خاصا ضخیم نمبر مرتب کیا، یونیورسٹی گزٹ کے معاون مدیر بھی رہے ، 1942ء میں ریڈیائی تقاریر کا ایک مجموعہ" تنقیدی اشارے" شائع کیا،1944ءمیں انجمن ترقی اردو کیلئے عزیز احمد کے اشتراک سے اردو شاعری کا انتخاب "انتخاب جدید" کے نام سے شائع کیا ،12 مارچ 1945کو رضا انٹر کالج رامپور کے پرنسپل ہوئے اور 1946ء میں تعلیم بالغان کے پروگرام ڈائریکٹر بنے،اگست 1946ء کو لکھنؤ یونیورسٹی میں بحیثیت اردو ریڈر کے تقرری ہوئی،دسمبر 1955ء میں دوبارہ علی گڑھ میں شعبہ اردو کے ریڈر ہوگئے، 1956 میں انجمن ترقی اردو کے اعزازی سکریٹری بنائے گئے اور "ہماری زبان" کی ادارت بھی سنبھالی،سرسید ہال کے پروسٹ بھی رہے،مئی 1958ء میں شعبہ اردو کے صدر بنے،دسمبر 1960ء سے 1962 تک افتاب ہال کے بھی پروسٹ رہے،اسی دوران مسلم یونیورسٹی اسٹاف ایسوسی ایشن کے صدر بھی بنائے گئے،1964 سے 1966ء تک آرٹس فیکلٹی کے ڈین رہے،3 ستمبر 1969ء کو وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے شکاگو یونیورسٹی گئے اور 7 اکتوبر 1973ء کو شعبہ اردو سے بحیثیت پروفیسر اور صدر کے سبکدوش ہوگئے،سبکدوشی کے بعد اپنا ساراوقت انجمن ترقی اردو کو دیا،اسی اثنایکم اپریل 1974 سے 1976ءانسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹدیز شملہ میں وزیٹنگ فیلو کی حیثت سے مقیم رہے،21 مئی 1977ء کو کشمیر یونیورسٹی کے اقبال چئیر کی ذمہ داری سنبھالی ، دسمبر 1977ء کو بین الاقوامی اقبال کانفرس کیلئے لاہور گئے، اقبال چئیر کو اقبال انسٹی ٹیوٹ میں تبدیل کرنے کا سہرا انہیں کے سر رہا ، 1979ء میں اس کے پہلے فاؤنڈر ڈائریکٹر بھی بنے اور " اقبالیات " نامی ایک مجلہ بھی جاری کیا اور اس کے مدیر بھی رہے،تقریبا دس سال کشمیر میں قیام کے بعد اکتوبر 1987ء کو علی گڑھ واپس آگئے.
آل احمد سرور ہشت پہلو شخصیت کے مالک تھے، اردو ادب میں نثر ونظم کی تقریباً سبھی اصناف پر انہوں نے طبع آزمائی کی لیکن ان کی تخلیق پر ان کی تنقیدی صلاحیت اس قدر حاوی ہوگئی کہ بقیہ تمام حیثیتں پس پشت پڑ گئیں، سرور ایک اچھے شاعر تھے، انہوں نے غزل و نظم دونوں پر اپنی قادرالکلامی کا ثبوت پیش کیا ہے، ابتدائی شاعری میں ان کی نظموں اور غزلوں میں دور جدید کی جھلک نمایاں ہے،اس میں ترقی پسندانہ رجحانات بھی ہیں، اس میں غم ، خوشی ، امنگ،افسردگی،شکست، فتح ،بے یقنی اورخوداعتمادی سب کی آمیزش ہے،اس لحاظ سے یہ قدیم اور جدید دونوں کے رنگ کو اپنے کلام میں پیش کرتے ہیں، ان کی شاعری میں سوزوساز کے ساتھ حسن وعشق کی آگہی اور سرشاری بھی پائی جاتی ہے،ان کی شاعری میں قنوطیت کے بجائے رجائیت ہے، ان کا لہجہ وفکر منفرد ہے،ان کی شاعری میں جذبات نگاری،پیکر تراشی بھی ہے، ان کے یہاں عشق ایک ایسا جذبہ ہے جسے کچھ لفظوں میں نہیں سمیٹا جا سکتا ہے،ان کی عشقیہ شاعری میں سلیقہ ہے،انہوں اپنی شاعری کو اپنی ذات کے محدود دائرہ میں نہ رکھتے ہوئے اس میں فکری وسعت بخشی،ان کی غزلوں میں سماجیاتی پہلو بھی ہے، جس میں انہوں اپنے عہد کے تہذیبی وفکری تصویر کو بڑی خوبصورتی سے کینواس میں رنگوں کو بھرا ہے ،ان کی غزل بھی اپنے لہجے وآہنگ اور مزاج کے اعتبار سے کلاسیکی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے، سرور خود لکھتے ہیں کہ " مجھے شاعری میں کلاسیکی انداز بیان کی نوک پلک اور نفاست پسند ہے" ، ان کی بعد کی غزلیں اسلوب اور لفظیات کے اعتبار سے بدلی بدلی ہوئی ہیں جو ان کی تبدیلیوں کے شاعر ہونے کا پتہ دیتی ہے ، سرور اقبال اور غالب سے متاثر تھے لیکن ان کا اپنا الگ رنگ سخن تھا،انہوں نے فکری وادبی ماحول سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، ہندوستان کی جنگ آزادی،روس کی اشتراکیت کے تجربے اور ترقی پسند تحریک سے گہرا اثر قبول کیا تھا ،لیکن یہ حقیقت ہے کہ اپنی تمام تر ترقی پسندی کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو کسی خول میں قید نہیں کیا،ان کے کلام میں تغزل،زبان وبیان کی لطافت،معنی آفرینی،سوز وگداز،جذباتی حرارت کی وجہ سے ان کی انفرادیت نمایاں ہے، ان کے کلام میں تصنع ،تکلف اور آورد نہیں ہے،سادگی،سلاست،فصاحت اور اثر آفرینی ان کی شاعری کی نمایاں خصوصیت ہے،ان کی شاعری میں جمالیاتی احساس کی ترجمانی،سرشاری،عرفان اور ادراک بھی ہے اور رموز کائنات کی آگہی بھی ہے،نغمگی وغنائت بھی ہے،غم جاناں کا جمال بھی ہے تو غم دوراں کا جلال بھی ہے، ان کی غزلوں اور نظموں میں جو دھیما پن،متانت،سنجیدگی اور روشن فکر کی کارفرمائی ملتی ہے وہ ان کی انفرادیت کی پہچان ہے.
سرور کو نظم ونثر دونوں میں خاصی دسترس حاصل تھی،لیکن جیسے جیسے وہ نثر کے میدان میں آگے بڑھتے گئے نظم سے دور ہوتے گئے اور بحیثیت ادیب و نقاد اپنی منفرد شناخت قائم کرلی ، ان کا تخلیقی وتنقیدی سفر چھ دہائیوں پر محیط ہے،ان کا نثر میں دامن نہایت وسیع و وقیع ہے،سرور ایک غیر جانب دار،منصف مزاج اور روشن خیال نقاد تھے،اعتدال و توازن ان کی تنقید نگاری کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے،ان کی تنقید کا ایک خاص وصف ان کا دلنشیں انداز تھا، انہوں تنقید نگاری کے زاویے کو بدل کر رکھ دیا، انہوں نے گروہ بند تنقید سے اعراض کرتے ہوئے تنقید کے لئے ایسے رہنما اصول مرتب کئے جس نےادب کو ادبی انداز میں دیکھنے اور پرکھنے کا شعور پیدا کیا،انہوں نے تنقید میں نظریاتی افراط وتفریط کے بجائے فنی تقاضوں کی کسوٹی پر پرکھنے کے نئے ضابطے بنائے،سرور TS Eliotکے اس قول کو دہرایا کرتے تھے کہ"ادب کی عظمت کو محض ادبی اصولوں سے نہیں جانچا جا سکتا لیکں یہ بہر حال ضروری ہے کہ ادب پہلے ادب ہو بعد میں کچھ اور"، عملی تنقید میں ان کی خاص توجہ جمالیاتی عنصر اور حسن کاری پر رہتی،انگریزی ادب سے لگاؤ نے ان کی تنقید نگاری کے دامن کو وسیع کیا اسی لئے مغربی مفکرین کے خیالات سے انہوں اردو تنقید کے دامن کو وسعت بخشی، سرور تنقید نگاری میں خامیوں سے زیادہ خوبیوں کو بیان کر نے پر زور دیتے ہیں اسی لئے وہ لکھتے ہیں"میں چوں کہ تنقید کو ذہنی عیاشی نہیں سمجھتا بلکہ انسانی ذہن کے لئے اس کے کام کو وہی سمجھتا ہوں جو ایک ڈاکٹر مریض کیلئے کرتا ہے اس لئے عام فہم انداز میں بیان کی کوشش کرتا ہوں"،سرور اپنی بات کو صراحت سے،وضاحت سے عام فہم زبان وبیان میں رکھنے کے عادی ہیں، ان کے تنقیدی مضامین اور نثر نگاری کا اسلوب دلآویز اور لطف ولذت سے بھرا ہوا ہوتا تاکہ قارئین کو موضوع میں دلچسپی پیدا ہو اور ادبی مسرت کاحصول ہو،ان کے اداریوں کے موضوعات کا دائرہ خاصا وسیع ہے،انہوں نے ہر موضوع پر قلم اٹھایا اور بہت کچھ لکھا،اگر ان کی اقبال شناسی اور غالب شناسی پر بات نہ کی جائے تو ناانصافی ہوگی،اقبالیات پر ان کے کام کو وہی درجہ حاصل ہے جوعبدالرحمن بجنوری کو غالب کے لئے حاصل ہے.
اس کے علاوہ 1954ء میں وہ ساہتیہ اکاڈمی کے ممبر بنے،1958ء میں اردو مشاورتی بورڈ کے کنوینر اور اکیڈمی کونسل اور ایگزیکٹو بورڈ کے ممبر بنے،اگست 1960ءمیں بین الاقوامی مستشرقین کانگریس میں شرکت کے لئے وزرات تعلیم حکومت ہند کی جانب سے ماسکو گئے، 1966ء میں بین الاقوامی ترجمہ کانفرس میں شرکت کیلئے کابل بھی گئے،اسی سال وزرات تعلیم حکومت ہند نے"بھارتی بھاشا سمیتی"مشاورتی کمیٹی بنائی اور ہر زبان کا ایک ادیب اس میں شامل کیا انہوں نے اس کمیٹی میں اردو کی نمائندگی کی،1978ءمیں حکومت ہند کے وزرات تعلیم کے قائم کردہ ترقی اردو بورڈ کے نائب چئیرمین رہے،گجرال کمیٹی پر تبصرہ کمیٹی کے صدر بھی رہے یہ کمیٹی بعد میں "سرور کمیٹی" کے نام سے مشہور ہوئی،1989ء میں کشمیر یونیورسٹی نے ان کے ادبی خدمات کے اعتراف میں میں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری تفویض کی،1998ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ اردو نے پروفیسر ایمریٹس کے عہدہ پر فائز کیا،1992ء میں حکومت ہند نے اعلی شہری اعزاز پدم بھوشن سے بھی سرفراز کیا،فروری2001ء میں شعبہ اردو علیگڑھ نے سرور پر دوروزہ ادبی سیمنار کا انعقاد کیا.
اردو ادب کا عظیم نقاد اور بہترین شخصیت کا حامل آل احمد سرور کو 1996ء فالج کے حملے نے علیل کیا،دوبرس بعد جرمنی میں بیٹے کی اچانک وفات نےمزید توڑ کر رکھ دیا،جنوری2002ء میں اپنے داماد ڈاکٹر عبدالجلیل کے جنازہ میں شرکت کے لئے دہلی آئے اور یہیں 8 فروری 2002ء کی درمیانی شب انتقال ہو گیا، 9 فروری کو جنازہ علی گڑھ لایا گیا اور یونیورسٹی کے قبرستان میں سپرد خاک کئے گئے.
سرور کے تخلیقی اور ترتیبی مضامیں و شاعری کے مجموعے مندرجہ ذیل ہیں :-
1۔ تنقید کیا ہے
2۔ ادب اور نظریہ
3۔ نئے اور پرانے چراغ
4۔ تنقیدی اشارے
5۔ نظریہ اور نظریہ
6۔ مسرت سے بصیرت تک
7۔ذوق جنون
8۔ تنقید کے بنیادی مسائل
9۔ پہچان اور پرکھ
10۔ کچھ خطبے کچھ مقالے
11۔فکر روشن
12۔ افکار کے دیے
13۔ اردو میں دانشوری کی روایت
14۔ ہندوستانی مسلمان اور مجیب صاحب
15۔ خواب اور خلش
16۔دانشور اقبال
17۔ رشید احمد صدیقی کے خطوط
18۔خطوط عبدالحق بنام آل احمد سرور
19۔ اردو تحریک
20۔ سلسبیل
ساحل کے سکوں سے کسے انکار ہے لیکن
طوفان سے لڑنے میں مزا اور ہی کچھ ہے
حسن کافر تھا ادا قاتل تھی باتیں سحر تھیں
اور تو سب کچھ تھا لیکن رسم دل داری نہ تھی
ہم تو کہتے تھے زمانہ ہی نہیں جوہر شناس
غور سے دیکھا تو اپنے میں کمی پائی گئی
لوگ مانگے کے اجالے سے ہیں ایسے مرعوب
روشنی اپنے چراغوں کی بری لگتی ہے
یہ کیا غضب ہے جو کل تک ستم رسیدہ تھے
ستم گروں میں اب ان کا بھی نام آیا ہے
تمام عمر کٹی اس کی جستجو کرتے
بڑے دنوں میں یہ طرز کلام آیا ہے
اب دھنک کے رنگ بھی ان کو بھلے لگتے نہیں
مست سارے شہر والے خون کی ہولی میں تھے
اپنی اپنی ڈفلی ہے راگ اپنا اپنا ہے
ٹولیاں تو ملتی ہیں قومیت نہیں ملتی
اک خدا کی بندگی کا حق ادا ہوتا نہیں
شہر کے اتنے بتوں کی بندگی کیسے کریں
حسن ہو یا ہو سیاست سب بناتے ہیں غلام
دوستی کے ہم ہیں قائیل، چاکری کیسے کریں
آج ہر شمع کو خطرہ ہے ہر اک پھول کو خوف
ظلمتوں کا ہے وہ طوفاں کہ ٹھرتا ہی نہیں