Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

تعارف

سید یوسف علی خاں ناظم

یوسف علی خان اصلی نام اور شاعری میں ناظم تخلص رکھتے تھے، صاحب دیوان شاعر اور والی رامپور تھے، ان کی پیدائش 5 مارچ 1816ء کو رامپور میں ہوئی، ان کے دادا غلام محمد خان کے جب والی رامپور بننے کا وقت آیا تو  ان کے اور بھائی کے درمیان ریاست رامپور کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے تنازعہ ہوگیا، ریاست رامپور  پوری طرح اودھ  کے زیر سایہ تھی، نواب آصف الدولہ نے ان کے بھائی کے بیٹے محمد علی خان کو ریاست کا والی مقرر کردیا اور ان کے قتل کے  بعد ان کے کم سن بیٹے احمد علی خان کو ریاست کا والی بنادیا، محمد علی خان کے قتل کی وجہ سے خاندانی عداوت میں مزید اضافہ ہوگیا، یوسف علی خان ناظم کے خاندان نے کئی برس جلاوطنی کی زندگی گزاری، جلا وطنی ہی کی حالت میں ان کے دادا غلام محمد خان کی کشمیر میں وفات ہوگئی، اس دوران ان کا خاندان ہندستان کے مختلف شہروں بنارس، لکھنؤ اور دہلی میں بھٹکتا رہا، انہوں نے ابتدائی تعلیم لکھنؤ میں میر عوض عدیل اور مظفر علی اسیر سے حاصل کی، دہلی میں دوران سکونت مولوی فضل الحق خیرآبادی، مفتی صدر الدین آزردہ، مومن خان مومن اور مرزا اسد اللہ خان غالب سے کسب فیض کیا۔ یہ کم سنی میں ہی شاعری کرنے لگے تھے، پہلے مومن سے اصلاح لیا کرتے تھے بعد میں غالب سے لینے لگے، نواب یوسف علی خان ناظم منطق اور فلسفہ کے ماہر تھے اور اردو و فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہنے پر قادر تھے۔والی رامپور

احمد علی خان اچھا فرمانروا ثابت نہیں ہوا بالآخر یوسف علی خان ناظم کے والد نواب محمد سعید خان بہادر جو اس وقت بدایوں میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدہ پر فائز تھے ان کو ریاست کی ذمہ داری سونپ دی گئی، 1855ء میں نواب محمد سعید خان کی وفات کے بعد نواب یوسف علی خان نے 11 اپریل 1855ء کو عنان حکومت سنبھالی، 1857ء کے غدر کی وجہ سے پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف غم و غصہ کا ماحول تھا لیکن ریاست رامپور پرسکون تھی، یہ یوسف علی خان کی بہتر انتظامی صلاحیتوں کا ہی ثمرہ تھا کہ ہنگامے نے اس علاقے کو اپنی زد میں نہیں لیا، اسی ہنگامہ کے دوران بریلی اور مراد آباد کے انگریز افسران اور عہدیداران بے سروسامانی کی حالت میں نینی تال منتقل ہوئے تو نواب رامپور یوسف علی خان نے ان کی خبر گیری کی اور مالی اعانت بھی کی، نواب کی انہیں کارگزایوں کی بدولت انگریز افسران ہمیشہ ان کے شکر گزار رہے،  ہنگامہ فرو ہونے کے فوراً بعد انگریزی حکومت نے یورپ سے ایک نقرئی پیالہ جس میں نواب کا نام کندہ تھا بطورتشکر بھیجا،  15 نومبر 1859ء کو گورنر جنرل لارڈ کیننگ نے فتح گڑھ جشن کے دوران جو غدر کے فرو ہونے کے بعد منعقد ہوا تھا اس میں نواب رامپور کی خدمات کا شکریہ ادا کیا اوربیس ہزار روپے کے قیمتی خلعت کے ساتھ ان کے اعزاز میں گیارہ ضربوں کی جگہ تیرہ ضرب توپوں کی سلامی بھی دی، اس کے علاوہ "فرزند دل پذیر" کے لقب سے بھی نوازا، 4 مئی 1860ء کو گورنر جنرل لارڈ کیننگ نے ایک سند عطا کی جس کی رو سے ریاست رامپور کو اپنے جانشین کی تقرری میں برطانوی حکومت سے اجازت کی ضرورت نہیں رہی، 23 جون 1860ء میں انگریزی سرکار نے بریلی کے 146 مواضعات کا الحاق بھی ریاست رامپور سے کردیا اس طرح سے ریاست رامپور کا جغرافیائی دائرہ وسیع ہوگیا، یکم نومبر 1861ء کو ملکہ وکٹوریہ کے خاص حکم پر الہ آباد میں دربار منعقد کیا گیا جس میں مہاراجہ گوالیار، مہاراجہ پٹیالہ، بیگم بھوپال اور نواب رامپور کو اسٹار آف انڈیا کے تمغہ سے نوازا گیا، 1864 میں سرجان لارینس نے اپنی قانون ساز کونسل میں ان کو ممبر منتخب کیا، اس وقت اس کے اجلاس کولکتہ میں منعقد ہوتے تھے، نواب رامپور یوسف علی خان ناظم نے اس میں شرکت کی اور قوانین کی ترتیب و ترمیم کے سلسلے میں بھی بہت اہم خدمات انجام دیں جن میں انسدادِ قمار بازی، قاضیوں کا تقرر اور زمینداران و کاشتکاران کی نگہداشت جیسے منظور شدہ قوانین انہیں کے مرہون منت ہیں، والی ریاست رامپور اہل ذوق اور علم وادب کے ساتھ شعری ذوق و شوق بھی رکھتے تھے اسی وجہ سے ریاست میں علم وادب کی قدردانی بھی تھی، ریاست میں ان کو ترقی کے مواقع اور روزگار بھی میسر تھا، انہوں نے بھی اسی روایت کو آگے بڑھایا، ان کے دورحکومت میں دہلی اور لکھنؤ جو کہ پوری طرح اجڑ چکے تھے اور وہاں کے شعراء و ادباء دوسری ریاستوں کا رخ کررہے تھے تبھی انہوں نے اپنی دانش مندی اور فراخ دلی کی بدولت اپنی چھوٹی سی ریاست میں دونوں دبستانوں کے اجڑے ہوئے شعرا اور ادبا کو نہ صرف سہارا دیا بلکہ ان کی معاشی کفالت بھی کی، اس زمانے میں ان کی ریاست سے فیض پانے والوں میں سعد اللہ مراد آبادی، مرزا غالب، اسیر لکھنؤی، جلال لکھنؤی، میر عوض علی عدیل، امیر مینائی وغیرہ تھے، رام بابو سکینہ لکھتے ہیں "نواب صاحب موصوف نے شعراء دہلی و لکھنؤ کو اپنے دربار میں جمع کرکے اردو شاعری کو گنگا جمنی کردیا تھا، یعنی ان دونوں طرزوں کو ملا کر ایک نئے طرز کی بنیاد ڈالی تھی"،ان کے دور حکومت میں ریاست نے کافی ترقی کی بلکہ برطانیہ کے زیر نگیں یہ ایک مثالی ریاست تھی، نواب  کے مزاج میں رواداری تھی، عقیدۃً شیعیت کے امامیہ فرقہ سےتعلق رکھنے کے باوجود اہل سنت کا بہت احترام کرتے تھے.

نواب یوسف علی خان ناظم بحیثیت  حکمران، ایک بہترین منتظم، انسان نواز اور صاحب دیوان شاعر تھے، انہوں نے سبھی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی جس میں غزل، سلام، مخمس، رباعی، مثنوی اور سہرے بھی شامل ہیں، ان کا کلام فکری اعتبار سے مومن کے قریب ہے لیکن زبان و بیان میں غالب کا اثر غالب ہے، ان کی شاعری مجازی سے ہوکر عشق حقیقی کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے ، انہوں نے تصوف کا سہارا نہیں لیا بلکہ دل کی گہرائیوں سے اخلاقی اقدار کو ہی اپنے کلام میں روا رکھا، انہوں نے تشبیہات اور استعارات میں بڑی نازک خیالی سے کام لیا ،انہوں نے اپنی غزلوں میں حسن وعشق کی چھیڑ چھاڑ، محبوب سے نوک جھونک، شوخی، طنز اور زبان سے بات میں لطف کو پیدا کیا، ان کے کلام میں لکھنؤ کی ناز وادا بھی ہے انداز بھی اور رعایت لفظی کا خیال بھی ہے، انہوں نے اپنی غزلوں میں محض عاشق کے جذبات کی ترجمانی نہیں کی بلکہ کہیں کہیں معشوق کے خیالات کو بھی برتا ہے، ان کی شاعری میں بے تکلفی، شوخی اور ظریف الطبعی کے بھی عناصر ملتے ہیں، ان کی شاعری میں جابجا نوابی شان و شوکت کا اظہار ملتا ہے، ان کی شاعری میں رجائیت، انبساط، سرمستی اور رنگینی پائی جاتی ہے، تغزل کے اجزائے ترکیبی میں طنز بھی کرتے ہیں جس سے ان کی ذہانت طبع اور قدرت زبان کا پتہ چلتا ہے ان سب کے باوجود انہوں نے اپنی انفرادیت کو بھی برقرار رکھا ہے، ان کے سلام پر ان کے عقیدے کا رنگ گہرا ہے انہوں نے بیشتر سلام شہدائے کربلا کی شان میں کہے ہیں، انہوں نے واسوخت پر بھی طبع آزمائی کی ہے ، ان کی غزلوں میں واسوخت کا رنگ نظر آتا ہے، ذکا صدیقی رقم طراز ہیں "ناظم نواب بھی تھے اور عاشق بھی، مومن اور غالب عاشق تو تھے مگر نواب نہیں تھے بس یہیں سے ناظم کی انفرادیت نمایاں ہوتی ہے".

یوسف علی خان ناظم کے کلام پر عطیہ غالب کا بھی الزام لگایا گیا اس میں پیش پیش شیخ محمد اکرام تھے جنہوں نے مختار الدین احمد کی مرتب کردہ کتاب "نقد غالب" میں ایک مضمون میں یہ الزام لگایاہے اور مالک رام نے" تلامذہ غالب" میں بھی محض مماثلت کلام کی وجہ سے سوال کھڑا کیا ہے، جبکہ مومن اور غالب سے اصلاح کی بات امیر مینائی نے بھی لکھی ہے جنہوں نے 43 سال کا طویل عرصہ رامپور میں گزارا ہے اور کبھی کبھی ناظم نے امیر مینائی نے ناظم کے کلام پر خود بھی اصلاح دینے کی بات لکھی ہے، اکبر علی خان عرشی زادہ نے اپنے ایک مضمون "دیوان ناظم میں غالب کا حصہ" کے عنوان کے تحت شیخ محمد اکرام کے اعتراض کا جواب دیا ہے کہ"دوشاعروں میں مماثلت ہوجانا عجیب بات نہیں ہے، خصوصیت سے ایسی حالت میں جب دونوں آپس میں شاگرد و استاد بھی ہوں، اگر ناظم کے کلام میں غالب کے اثرات عکس پذیر ہوتے ہیں تو اس میں کسی بدظنی کو راہ دینا کہاں کا انصاف ہے؟".

نواب یوسف علی خان ناظم سرطان کے مرض میں مبتلا ہوئے اور بیماری شدید ہوتی گئی بالآخر 21 اپریل 1865ء کو انتقال ہو ا اور رام پور کے خورشید منزل کے امام باڑے میں اپنے والد نواب محمد سعید خان بہادر کے پہلو میں سپرد خاک ہوئے، بعد از وفات" فردوس مکاں" لقب قرار پایا.

ان کی تخلیقات مندرجہ ذیل ہیں :-

1.   دیوان ناظم

2.   دیوان ناظم خمکدہ خیال

3.   واسوخت ناظم