Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس


ڈاکٹر طارق قمر

گردشِ خوں کو صوتِ اذاں دے کوئ

اک مسافر ہوں میں،

وہ مسافر جسے سمت و رفتار کی کچھ خبر ہی نہیں ،

جسکی اپنی کوئ رہ گزر ہی نہیں

اب کوئ آکے میرا پتہ دے مجھے

میں کہاں ہوں بس اتنا بتا دے مجھے،

راستہ دے مجھے

اس مسافت کو میری کوئ نام دے،

میری مٹّی کو تھوڑا سا آرام دے

یہ مسافر ترا رک تو جائے کہیں،

لکھ مِرے نام بھی اک سرائے کہیں

ہوں تو انساں مگر

ایک مدت سے میں قید پتھر میں ہوں،

راہِ جور وستم سے اٹھالے کوئ

مجھکو پتھر سے باہر نکالے کوئ

اے مِرے شیشہ گر مجھ پہ بھی اک نظر،

سنگِ رہ کو بھی اب کوئ پیکر ملے،

مجھ کو آزر ملے،

اک پرندہ ہوں میں دامِ صیاد میں

شہپر وں میں سمیٹے ہوئے آسماں،

کل تھا اونچی اڑانوں پہ نازاں بہت،

ہاں مگر آج خود

اپنی پرواز پر میں پشیماں بہت،

آنکھ نادم بہت، دل پریشاں بہت،

عقل حیراں بہت،

گردشِ خوں کو صوتِ اذاں دے کوئ،

شہپر وں کو نیا آسماں دے کوئ،

قصر و ایواں نہیں دشتِ جاں دے کوئ،

فکر آزاد پا بستہ میرا بدن،

بے صدا دشت میں ایک حرفِ سخن

نرغہءِ شام میں روشنی کی کرن

دامِ تیرہ شبی سے نکالے مجھے

کوئ آواز دے کے بلالے مجھے

روشنی اب گلے سے لگا لے مجھے،