چراغ اگر وہ جلانے آئے نشان مرقد کا مت بتانا
اگر وہ موسم مزاج تمُ کو کہیں ملے تو یہ اس سے کہنا
خزاں کا موسم گزر چکا ہے،اگر وہ چاہے تو لوٹ آئے
اسے پیامِ بہار دے کر بس اتنا کہنا
کہ وقت کروٹ بدل چکا ہے
غموں کا سورج بھی ڈھل چکا ہے
وہ بدنصیبی کا ایک کانٹا کبھی جو تلوے میں چبھ گیا تھا، نکل چکا ہے
اسے بتانا
ملول و بوجھل اداس شامیں بھی اب تبسم سے آشنا ہیں
وہ مضمحل اور خموش راتیں بھی اب تکلم سے آشنا ہیں
اسے بتانا کہ زندگی اک یقین ہے اب گماں نہیں ہے
کہ آج شمعوں کی رقص کرتی ہوئی لووں میں سنہرے خوابوں کی روشنی ہے دھواں نہیں ہے
کبھی صدائیں بھی بے نوا تھیں اور اب خموشی بھی اک سخن ہے
قبا پہ دن کی ہے کوئ دھبّہ ، نہ شب کا دامن ہی پُر شکن ہے
اسے بتانا
کہ زرد موسم گزر گیا ہے
غموں کا دریا اتر گیا ہے
مگر اسے تم یہ مت بتانا کہ
جس میں ہجرت لکھی تھی اس نے
وہ ایک لمحہ
دل و نظر میں ٹھہر گیا ہے
فریب جس کو دیا تھا اس نے
وہ شخص اندر سے مر گیا ہے