مولانا سید ابو ظفر ندوی علامہ شبلی نعمانی کے شاگرد، ندوۃ العلماء کے نامور فرزند اور علامہ سید سلیمان ندوی کے حقیقی بھتیجے تھے، آپ بہار کی مردم خیز سرزمین دیسنہ میں پیدا ہوئے، آپ کا خانوادہ علمی اور مذہبی حیثیت سے بہت ممتاز تھا آپ کے پردادا مولوی محمد شیر صاحب مشہور طبیب اور نیک سیرت بزرگ تھے آپ کے والد ماجد ابو حبیب بھی فن طب میں یگانہ تھے اور سلسلہ مجددیہ کے ایک بزرگ حضرت شاہ ابو احمد بھوپالی سے ارادت کا تعلق رکھتے تھے ۔
مولانا سید ابو ظفر ندوی نے ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے والد ماجد سے حاصل کی اس کے بعد 12 سال کی عمر میں ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخلہ لیا، اسوقت ندوہ العلماء علامہ شبلی کی رہنمائی میں علم وادب کا گہوارہ بنا ہوا تھا، وہ جس پتھر کو بھی چھو لیتے وہ ہیرا بن جاتا تھا اور جس کے ہاتھ میں قلم تھما دیتے وہ مصنف بن جاتا تھا، انھوں نے علامہ شبلی کی سرپرستی میں اپنی تعلیم مکمل کی اور 1911 میں فارغ التحصیل ہوئے، مولانا عبدالباری ندوی فلسفی اور مولانا شبلی متکلم آپ کے ہم سبق تھے۔
آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ملتان کے کسی مدرسے میں درس وتدریس سے کی، پھر 1915 میں رنگون برما چلے گئے۔ آپ سیر و سیاحت کے بھی بڑے شوقین تھے اور پوری دنیا کی سیاحت کا ارادہ رکھتے تھے، پوری دنیا کی سیاحت کا آپ کا شوق تو پورا نہ ہوسکا لیکن ہندستان کی سطح پر یہ شوق ضرور پورا ہوا چنانچہ 1922 میں احمد آباد گجرات میں گاندھی جی کے قائم کردہ مہا ودیالیہ میں عربی کے پروفیسر ہوئے اور قومی یونیورسٹی کے سینیٹ اور سنڈیکیٹ ممبر بھی نامزد کئے گئے پھر کچھ دنوں کے بعد مدراس کے جمالیہ کالج کے پرنسپل بن کر مدراس چلے گئے پھر نواب علی وزیر تعلیم ریاست جونا گڑھ کی دعوت پر جونا گڑھ چلے گئے اور وہاں علمی و مذہبی خدمات انجام دیتے رہے، قیام جونا گڑھ کے دوران آپ نے وہاں کے مشہور صاحب قلم جناب اختر جونا گڑھی کے ساتھ مل کر ایک رسالہ "شہاب" بھی نکالا ۔
1933 میں آپ دارالمصنفین گئے اور چند سال وہاں قیام کرنے کے بعد 1939ء میں رابندر ناتھ ٹیگور کے شانتی نکیتن بنگال میں عربی وفارسی کے پروفیسر بن کر چلےگئے پھر وہاں سے آپ ودیا سبھا احمدآباد گجرات منتقل ہوگئے، اس دوران آپ نے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کا مشغلہ بھی جاری رکھا۔
آپ نے علمی دنیا میں ایک مؤرخ کی حیثیت سے شہرت پائی، تاریخ ہی آپ کا موضوع رہا اور مدۃ العمر اسی فن کے شہسوار رہے آپ نے اس فن میں ایک درجن سے زائد کتابیں تصنیف کیں، آپ کی تاریخ نگاری اصولی اور فنی تاریخ نگاری ہے، تاریخ میں عام طور سے رزمیہ پہلو اجاگر کیا جاتاہے لیکن یہ درست نہیں، رزم کے ساتھ بزم کی مرقع آرائی بھی ضروری ہے، آپ نے اپنے پیش روؤں کی طرح سیاسی تاریخ کے ساتھ تہذیبی وتمدنی پہلوؤں کو بھی اپنی کتابوں میں اجاگر کیا ہے، آپ کا انداز خالص مؤرخانہ ہے، آپ نے اپنی کتابوں میں کہیں بھی انشا پردازی اور رنگین بیانی سے کام نہیں لیا ہے اور نہ کہیں جذباتیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ کا یہ نہج شعوری ہے، لکھتے ہیں "جذباتیت نگاری سے پوری طرح بچاؤکیا گیا ہے تاکہ واقعہ کو واقعہ کی حیثیت سے پڑھاجائے" (بحوالہ دیباچہ مختصر تاریخ ہند(
علامہ سید سلیمان ندوی صاحب کے ذہن میں ہندستان کے اسلامی عہد کی سیاسی تہذیبی اور تمدنی تاریخ کا ایک مبسوط اور جامع منصوبہ تھا اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے آپ نے ایک بزم بنائی جس میں ملک کے نامور مؤرخین شامل تھے اس میں ایک نام مولانا سید ابو ظفر ندوی کا بھی تھا اس سے ان کی مؤرخانہ حیثیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
چنانچہ 1933 میں آپ سید صاحب کی خواہش پر دارالمصنفین تشریف لائے اور کئی سال رہ کر تاریخ سندھ ، مختصر تاریخ ہند اور تاریخ خاندان غزنہ جیسی معرکۃ الآراء کتابیں تصنیف کیں، اسی طرح گجرات کے زمانہ قیام میں گجرات کے محکمہ آثار قدیمہ نے آپ سے تاریخِ گجرات لکھنے کی فرمائش کی اور آپ نے کئی سال کی محنت اور تلاش و تفحص کے بعد گجرات کی مفصل تاریخ لکھی، آپ کو گجرات کی تاریخ وتہذیب سے خاص دلچسپی تھی اتفاق سے آپ کی زندگی کا پیشتر حصہ بھی گجرات ہی میں گزراتھا۔
آپ کی سیرت وصورت اور اخلاق وکردار کے متعلق سید صباح الدین عبد الرحمن لکھتے ہیں "ان کے اخلاق سیرت وکردار میں بہت سی خوبیاں تھیں، شکل وصورت میں اپنے چچا حضرۃ الاستاذ مولانا سید سلیمان صاحب سے بہت مشابہہ تھے، تنہائی کو زیادہ پسند کرتے تھے لیکن جس سے ملتے بہت ہی خندہ پیشانی اور کشادہ دلی سے پیش آتے ان کا ظاہر وباطن ایک تھا، جو کچھ دل میں ہوتا وہی زبان پر ہوتا اسی لیے بڑے صاف گو تھے اپنی تقریروں میں مسائل کو مسائل کی خاطر پیش کرتےمصالح کا لحاظ بالکل نہ رکھتے (بحوالہ گجرات کی تمدنی تاریخ ۔۔۔حالات مصنف ص 8 (
مولانا ابوظفر ندوی نے علمی اور تعلیمی مصروفیات کے علاوہ عملی سیاست میں بھی دلچسپی لی اور گاندھی جی کی تحریک ترک موالات میں خاص حصہ لیا۔
بالآخر 28 مئی 1958 کو ہندستان کی خاک چھاننے والے اس عظیم مؤرخ نے اپنے ہی وطن دیسنہ میں وفات پائی اور وہیں کی مٹی میں سما گئے، مولانا سید ابوظفر ندوی نے تاریخ میں لگ بھگ ایک درجن سے زائد کتابیں اور بے شمار قیمتی مقالات تحریر فرمائے۔
ان کی تصنیفات درج ذیل ہیں
1. سفرنامہ برہما
2. برمی بول چال
3. 3-منتخبات اردو
4. جدید معلم اردو
5. فرہنگ مصطلحات
6. تاریخ گجرات
7. تاریخ اولیائے گجرات
8. مختصر تاریخ گجرات
9. تذکرۂ اقدس
10. تاریخ بوہرہ
11. مختصر تاریخ ہند
12. تاریخ سندھ
13.تاریخ خاندان غزنہ
14. گجرات کی تمدنی تاریخ