Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس


ڈاکٹر طارق قمر

خشک آنکھوں سے کہاں طے یہ مسافت ہوگی

خشک آنکھوں سے کہاں طے یہ مسافت ہوگی

دل کو سمجھایا تھا اشکوں کی ضرورت ہوگی

 

رنگ محلوں کے حسیں خواب سے بچ کر رہنا

ہے خبر گرم کہ خوابوں کی تجارت ہوگی

 

اپنے گھر خود ہی پشیمان سا لوٹ آیا ہوں

میں سمجھتا تھا اسے میری ضرورت ہوگی

 

میری تنہائی سکوں دینے لگی ہے مجھ کو

اس سے مت کہنا سنے گا تو ندامت ہوگی

 

خشک لب پیاس کی تصویر کے اندر رکھ دو

پیاس بجھ جائے گی دریا کو بھی حیرت ہوگی

 

سلسلہ جلتے چراغوں کا چلو ختم ہوا

تیرگی خوش ہے ہواؤں کو بھی راحت ہوگی

 

کب سحر پھوٹے گی کوئی ترے زندانوں سے

کب رہائی مری اے شہر اذیت ہوگی

 

جیسے ممکن ہو ان اشکوں کو بچاؤ طارقؔ

شام آئی تو چراغوں کی ضرورت ہوگی