Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

تعارف

ڈاکٹر ترنم ریاض

ڈاکٹر ترنم ریاض کا اصلی نام فریدہ ترنم تھا آپ 9 اگست 1963 کو سری نگر کشمیر میں پیدا ہوئیں ، ابتدائی تعلیم کرانگر سری نگر میں ہی ہوئی ، بعد ازاں آپ نے اردو اور ایجوکیشن میں ایم اے کیا اور ایجوکیشن ہی میں کشمیر یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی ، آپ کی پوری زندگی درس و تدریس اور تصنیف وتالیف میں گزری اس کے علاوہ آپ آل انڈیا ریڈیو سے بھی وابستہ رہیں ۔

آپ نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز 1973 میں کیا، 1975 ء میں پہلی کہانی لکھی جو روزنامہ "آفتاب" میں شائع ہوئی ، 1983 میں آپ نے پروفیسر ریاض پنجابی سے شادی کی اور فریدہ ترنم سے ترنم ریاض بن گئیں ، آپ کے شوہر کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں۔ شادی کے ابتدائی دنوں میں آپ کو آپ کے شوہر نامدار کے حوالہ سے پہچان دینے کی کوشش کی گئی لیکن بہت جلد آپ  نے اپنی انفرادی شناخت قائم کرلی اور اردو ادب کے افق پر ایک افسانہ نگار، ناول نگار ، شاعرہ ، مترجم ، تبصرہ نگار ، محقق اور نقاد کی حیثیت سے ابھریں ، آپ ایک بامقصد ، سنجیدہ تخلیق کار  اور غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل فنکار تھیں، فن ادب کے بنیادی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے آپ نے کئی ناول اور بے شمار افسانے لکھے ، مختلف سماجی مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا اور بڑی بیباکی کے ساتھ ان مسائل کو مختلف کرداروں میں ڈھال کر پیش کیا ، اپنی افسانہ نگاری میں ترنم ریاض مختلف کرداروں کی نفسیات اور ان کے جذبات کی بہترین عکاسی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور ان مسائل کو طشت از بام کرتی ہیں جو ایک آئیڈیل سماج کی تشکیل میں رکاوٹ ہیں، وہ روز مرہ کی زندگی سے چھوٹے بڑے مسائل کو اٹھاتی ہیں اور انھیں مختلف کرداروں میں سمو کر بے کس ومجبور انسانوں کی آواز بن جاتی ہیں ، انھوں نے اعلی درجہ کے بے شمار افسانے تخلیق کیے، بطور مثال ان کا افسانہ "مٹی" جنگ سے متاثر ایک مظلوم انسان کی روداد قفس ہے ان کا ایک اور افسانہ "اچھی صورت بھی کیا" شہروں میں بڑھتے ہوئے گداگروں کی تعداد اور اس شرمناک پیشے میں گھسیٹے جانے والے معصوم بچوں کے استحصال کی داستان ہے اسی طرح سے ایک اور  افسانہ "برآمدہ" میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوجانے والی خواتین کے ان نفسیاتی مسائل سے سروکار ہے جو ان کے شوہروں کے دوسری خواتین میں دلچسپی کے سبب پیدا ہوتے ہیں ، اسی طرح افسانہ "یہ تنگ زمین" اور "پوٹریٹ" میں بھی عورتوں کے مسائل سے بحث کرتی ہیں، ان کا ایک اور شاہکار افسانہ "شہر" ہے جس میں انھوں نے نئی شہری زندگی کے مسائل اور آلام کو پیش کیا ہے ، اسی طرح سے ان کے افسانے "آدھے چاند کا عکس" اور "گنجے" میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے نفسیاتی مسائل سے بحث کی گئی ہے ، ایک اور افسانہ "برف گرنے والی ہے" میں مفلسی اور غربت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ غرض ترنم ریاض نے گوناگوں سماجی مسائل پر قلم اٹھایا ہے ، ان کا ہر افسانہ سماجی مسائل کا آئینہ دار ہے اور  وہ بے مثال حسنِ بیان ، غنائی تاثر  ، کردار نگاری اور منفرد اسلوب کا حامل ہے۔

وزیر آغا لکھتے ہیں  کہ "افسانے کا فن بنیادی طور پر کہانی کہنے کا فن ہے اور یہ کہانی ماحول اور اس کے کرداروں سے مرتب ہوتی ہے"۔ یہ تعریف ترنم ریاض پر صد فیصد صادق آتی ہے ، ان کی کہانیوں میں ماحول اور کرداروں کا حسین امتزاج ملتا ہے ۔

اسی طرح وہاب اشرفی ترنم ریاض کی تخلیقی انفرادیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

 "ترنم ریاض ایک فعال افسانہ نگار اور شاعرہ کی حیثیت سے احترام کی نظروں سے دیکھی جاتی ہیں ، انہوں نے  عورتوں کے مسائل کے ساتھ ساتھ اْن رخوں پر بھی توجہ کرنے کی کوشش کی ہے جن سے ہم کسی نہ کسی طور پر متاثر ہیں ، سب سے اہم بات یہ ہے کہ آج کے منظر نامہ پر محیط ان کے افسانے اپنی تمام تر تلخیوں کے ساتھ زندگی کی شادمانیوں کے اطراف بھی پیش کرتے ہیں ، ان کا رویہ MORBID نہیں ہے ، ایسے میں ان افسانوں کے کلچرل پہلوؤں کے ساتھ ساتھ زندگی جینے کے مثبت پہلو ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں۔

ان کے افسانوں میں معاشرے میں جاری ناانصافیوں ، ظلم وجبر اور استحصال کا نوحہ ہے ، ترنم ریاض کے یہاں معاشرتی شعور کے ساتھ ساتھ نفسیاتی بصیرت اور متصوفانہ رنگ کی جھلکیاں بھی نظر آتی  ہیں ، ان کی ذات میں متنوع زندگی کا گہرا تجربہ ، فطرت انسانی کا گہرا ادراک اور اظہار کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے   

 وہ ایک کامیاب افسانہ نگار کے ساتھ ایک اچھی شاعرہ بھی تھیں ، انھوں نے شاندار نظمیں تخلیق کیں ، تانیثی ادب کو پروان چڑھایا ، نئی عورت کے مسائل کو بیان کیا اور انسانی زندگی کے بے شمار مسائل کو شعری پیرہن عطا کیا ۔

ان کے پہلے شعری مجموعہ کلام کا نام "پرانی کتابوں کی خوشبو ے اس کے فلیپ پر بلراج کومل کے یہ الفاظ درج ہیں: "ترنم ریاض کی شعری کائنات مناظر فطرت سے لے کر انسانی مسائل اور انسانی رشتوں کی گوناگوں کیفیات کی فنکارانہ تجیسم سے وابستہ ہے لیکن اس عمل میں نہ تو وہ موضوعات کی میزان سازی کرتی ہیں اور نہ ہی کوئی اشتہاری اعلان نامہ تیار کرتی ہیں ان کی نظمیں اپنے متنوع دائرۂ کار میں انسانی ردِعمل کی انتہائی نرم و نازک مثال ہیں۔ ‘‘

ترنم ریاض بے حد سنجیدہ ، شائستہ ، خوش اخلاق شخصیت کی مالکہ تھیں ، دسمبر 2015 ء میں دوحہ قطر ان کی آمد ہوئی تھی اور انڈیا اردو سوسائٹی کے بینر تلے انھوں نے بڑا کامیاب مشاعرہ پڑھا تھا ، سامعین نے ان کے کلام کو دل کھول کر نہ صرف سراہا تھا بلکہ انھیں Standing ovation بھی دیا تھا ۔

ان کی تصنیفات درج ذیل ہیں :

افسانے اور ناول :

*یہ تنگ زمین (1998 (

*ابا بیلیں لوٹ آئیں گی (2000(

*یمبرزل (2004 (

*میرا رخت سفر (2008 (

*مورتی (ناول۔ 2004(

*برف آشنا پرندے(ناول ۔ 2009(

*نرگس کے پھول

*صحرا ہماری آنکھوں میں

*فریب خطہ گل

                                                      شعری مجموعے

*پرانی کتابوں کی خوشبو،

*بھادوں کے چاند تلے

*زیرسبزہ محو خواب (2015(

*چاند لڑکی

                                                                                      تراجم

*سنو کہانی ( ہندی سے ترجمہ (

*ہاؤس بوٹ پر بلی ( انگریزی سے ترجمہ (

*گوسائیں باغ کا بھوت ( ہندی سے ترجمہ (

                                                                                           تنقیدی مضامین

*بیسویں صدی میں خواتین کا اردو ادب

*چشم نقش قدم

آپ کو 2014 میں سارک ادبی اعزاز سے نوازا گیا ، آپ کے فن اور شخصیت پر اب تک دو طلباءکو پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی تفویض کی جاچکی ہے ۔

2019 ء میں کووڈ کی جو آندھی چلی اس نے شہر کا شہر ویران کردیا ، ڈاکٹر ترنم ریاض کے شوہر پروفیسر ریاض پنجابی کا انتقال ابھی 8 اپریل 2021 کو ہوا ہی تھا کہ ڈیڑھ ماہ کے بعد اس جان لیوا وائرس نے انھیں بھی اپنا شکار بنا لیا اور  20 مئی 2021 کو ان کی سانسوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور وہ دنیائے ادب کو ویران کر کے اس دنیا سے دور ایک دوسری دنیا کے سفر پر روانہ ہوگئیں ۔