Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

تعارف

مرزا محمد ہادی رسوا

 

پورا نام مرزا محمد ہادی ہے لیکن شہرت مرزا ہادی رسواکے نام سے پائی ، ان کی پیدائش 1858ء میں لکھنؤ کے محلہ 'باگ ٹولہ' میں ہوئی جسے کوچہ آفرین علی خان کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، عہد مغلیہ میں ان کاخاندان مازندران سے بھارت آیا اور ریاست اودھ میں سکونت پذیر ہوا ، ان کا خاندان علوم وفنون میں شہرت رکھتا تھا اسی وجہ سے نوابین اودھ نے ان کو منصب اور جاگیریں عطا کیں ۔

مرزا محمد ہادی رسوا ماں کی نسبت سے طباطبائی سادات سے تعلق رکھتے تھے، انہوں نے فارسی، علم نجوم، ریاضی، علم حساب کی ابتدائی تعلیم اپنے والد آغا محمد تقی سے حاصل کی ، عربی زبان دوسرے ماہرین فن سے سیکھی ، شرح جامی مولوی محمد یحیی سے منطق مولوی غلام حسنین کنتوری و مولوی کمال الدین سے پڑھی ، اپنے وسعت مطالعہ اور کتب بینی سے اچھی علمی استعداد پیدا کرلی، انگریزی زبان مین بھی درک حاصل کیا اور پرائیوٹ کالج سے انٹر پاس کیا ، اس کے بعد رڑکی کالج کے شعبہ انجینئرنگ میں داخلہ لیا ، انجینئرنگ کا امتحان پاس کرنے کے بعد ٹریک انجینئر کی حیثیت سے کوئٹہ بلوچستان ریلوے میں ملازمت اختیار کرلی اسوقت ان کے ذمہ ریلوے کی پٹریاں بچھوانا، عمارت کے نقشے تیارکرنا اور اسٹیشن بنوانے کاکام تھا ۔

لیکن ان کا زندگی کا علمی کارواں رکا نہیں بلکہ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے فارسی میں منشی فاضل پاس کیا اور پھر اسی یونیورسٹی سے فلسفہ میں پرائیویٹ گریجویشن بھی کیا، فلسفہ پر چند مضامین انگریزی زبان میں لکھے جوکہ امریکہ سے شائع ہوئے، ان مضامین کی معنویت اور اہمیت کے پیش نظر اورینٹل یونیورسٹی امریکہ نے انہیں PHD اور DSO کی اعلیٰ اعزازی ڈگریوں سے سرفراز کیا ، آپ مشن اسکول نخاس میں فارسی کے استاد مقرر ہوئے اس کے علاوہ کرسچن ہائی اسکول میں بھی تدریسی فرائض انجام دئے ، فارسی کے پروفیسر کی حیثیت سے کرسچن کالج میں بھی خدمات انجام دیں ، پرنسپل بریڈے کی ایما پر شام کو 'ازبیلا تھوبرن گرلس کالج ' میں بھی تدریسی فرائض انجام دئے ۔

 اگست 1919ء میں دارالترجمہ حیدرآباد سے بحیثیت مترجم وابستہ ہوگئے وہاں انہوں نے دارالترجمہ میں گیارہ کتابوں کے ترجمے کئے ، جن میں سے چار فلسفہ ، تین اخلاقیات، دو نفسیات اور دومنطق پر مشتمل تھیں ، ان گیارہ کتابوں میں سے دس کتابیں انگریزی زبان میں اور ایک کتاب عربی میں تھی ، ان میں سے کل دس ترجمے شائع ہوئے، اس کے علاوہ مرزا رسوا 'وضع اصطلاحات کمیٹی' کے رکن بھی تھے ، جن میں مولوی عبدالحق (ناظم دارالترجمہ ) نظم طباطبائی، علامہ عبداللہ عمادی، اور فلسفی عبدالباری ندوی بھی شامل تھے،مرزا رسوا جامعہ عثمانیہ میں تدریسی فرائض اس وقت انجام دیتے تھے جب کوئی فلسفہ یا منطق کا استاد موجود نہ ہوتا تھا ، جب مرزا حیدرآباد روانہ ہوئے تو اپنی کتابوں کا عظیم سرمایہ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ کے حوالے کرگئے، 1886ء کو انہوں نے 'اشراق 'نامی ایک رسالہ جاری کیا اس رسالے میں سلسلہ وار افلاطون کی کتابوں کا ترجمہ شائع کیا ،1916ء میں انہوں 'الحکم ' نامی رسالہ بھی جاری کیا، ان کا سب سے بڑا کارنامہ فلسفہ وعلوم حکمیہ کو اردوکے مخصوص انداز میں پیش کرنا ہے ، مولانا شبلی نعمانی نے ان کی علمی وادبی صلاحتیوں کے پیش نظر انھیں ندوۃالعلماء میں لکچررشپ کیلئے پیشکش کی لیکن انہوں نے معذرت کرلی، اردوشارٹ ہینڈ کی اصطلاحات جو آج بھی رائج ہیں وہ بھی مرزاہادی رسوا کی ایجاد کردہ ہیں "ہدیہ سنیہ وعلم الکلام " ان کی معرکۃ آرا تصنیف ہے جو غیر مطبوعہ ہے اور 26 جلدوں پر مشتمل ہے یہ کتاب انہوں نے شاہ عبدالعزیز کی تصنیف " تحفۃ اثنا عشریہ " کے جواب میں لکھی تھی،اس کے علاوہ غیر مطبوعہ کتابیں رسالہ درمنطق استقرائی،رسالہ دراصول مناظرہ (مرزا رسوامناظرے کے بھی شوقین تھے )رسالہ درعلم اللفس ، مصطلحات کیمیا ,, رسالہ دراعمال اضطراب ,,مدرستہ الواعظین میں آج بھی محفوظ ہیں.

مرزامحمدہادی رسوا ایک مایہ ناز ادیب، شاعر ، ناول نگار، نقاد ، فلسفی،ریاضی اور ماہر ہئیت تھے، ان کو کئی زبانوں پر دسترس حاصل کی جن میں عربی، فارسی، اردو، عبرانی، انگریزی، ہندی ،لاطینی ، سنسکرت جیسی زبانیں شامل ہیں ، اس کے علاوہ کئی مشرقی اور مغربی علوم میں بھی مہارت حاصل تھی،ان کو شاعری کا شوق بچپن سے تھا، ابتدا میں مرزادبیر سے اصلاح لینے کی کوشش کی لیکن مرزا دبیر نےان کو مرزا محمداوج کے سپرد کردیا، ان کو سبھی اصناف سخن پر دسترس حاصل تھا لیکن انہوں نے غزل ، قصائد ، مثنوی اور سلام ہی کہنے پر اکتفا کیا، وہ نظم و نثر دونوں پر قادر تھے مگر طبیعت نثر کی طرف زیادہ مائل تھی ، انہوں نے شاعری میں دبستان لکھنؤ کے بجائے دہلوی رنگ اختیار کیا ، غالب کے خیالات اور طرز فکر کی اتباع کی ، ان کی زمینوں میں غزلیں بھی کہیں مگر اپنی انفرادیت کو قائم رکھا، ،ان کی غزلوں میں لکھنؤی ٹکسالی زبان ، محارورات ، ندرت خیالی اور بلند پروازی ملتی ہے،ان کی غزلوں میں بانکپن ، فلسفیانہ خیالات اور عاشقانہ رنگ ہے، ان کی شاعری کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ صرف اپنے جذبات وخیالات کونظم نہیں کرتے بلکہ اسی میں رم جاتے ہیں، ان کی شاعری کی زبان شستہ صاف اور سلیس ہے، قصائد اور سلام  کم ہی کہے لیکن ان میں لکھنؤی طرزِ ادا اور عقیدہ کی جھلکیاں صاف نظر آتی ہیں ، ان کی مثنویاں زبان وخیالات سے پر ہیں، ان میں حسن وعشق، شباب اور فلسفیانہ رنگ اور حکیمانہ عناصر غالب ہیں.

مرزاہادی رسوا کی نثر میں سب سے نمایاں ان کی ناول نگاری ہے ، اردو ادب میں ان کی ناول نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے، حالانکہ ان سے پہلے ناول کے نئے دور کا آغاز ہوچکا تھا ،انہوں نے ناولوں میں نہ صرف حقیقت نگاری کو اپنایا بلکہ پہلی مرتبہ ناول نگاری کے تمام فنی لوازمات کو برتنے کی کوشش کی، انہوں نے اپنے بیشتر ناولوں میں عورتوں کے معاملات ومسائل اور ان کی نفسیاتی پیچیدگیوں کو اپنا موضوع بنایا اور ان کی سماجی حیثیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی، مرزا اپنی ناولوں میں نہ ڈپٹی نذیر احمد کی طرح مصلح نظر آتے ہیں ، نہ ہی سرشار کی طرح ظریفانہ رنگ اختیار کرتے ہیں اور نہ ہی شررکی طرح ماضی کے پرستار دکھائی دیتے ہیں ۔ ماجرانگاری یاپلاٹ سازی میں ان کاکوئی جواب نہیں ، ان کے ناولوں کے پلاٹ توازن و تناسب ، ہم آہنگی اور تنوع  کے لحاظ سے نہایت مربوط ہوتے ،انہوں نے اپنے ناولوں کے کرداروں کی تخلیق میں نہایت سلیقہ مندی سے کام لیا،ان کی ناولوں کا ہر کردار نمایاں،جاندار اور معاشرے کی جیتی جاگتی تصویر پیش کرتا ہے، انہوں نے نہ صرف فطری کردارنگاری کی بلکہ کرداروں کے احساسات،جذبات اور نفسیات کو پوری طرح پیش کیا، پلاٹ کی تعمیر وتشکیل اور کردارنگاری کے ضمن میں انہوں نے جہاں اپنے فنی شعور کا ثبوت دیا ہے وہیں انہوں نے زبان وبیان، مکالمہ نگاری اور منظر نگاری کے میدان میں بھی اپنے قلم کا جادو جگایا ہے ، اس سے ان کی زبان واظہار پر قدرت کا پتہ چلتا ہے،ان کی زبان عام فہم، سلیس اور شستہ ہے،جس میں شوخی، متانت، بےساختگی ہے،ان کا بیانیہ انداز متوازن اور دلآویز ہے ،انہوں نے مکالمہ نگاری میں بھی فن کاری کا اعلی نمونہ پیش کیاہے ، ان کے مکالمے نہایت چست، وقیع وبلیغ، مختصر اور کردار کے مناسب ہوتے ہیں وہ اپنے مکالموں سے کرداروں میں جان ڈال دیتے ہیں ، انہوں نے مختلف کرداروں کی نفسیات اور جذبات کی عمدہ عکاسی کی ہے  اور اس طرح لکھنؤی تہذیب کی پوری فضا کو پیش کردیا ہے ، ان کو لکھنؤ کی بیگماتی زبان ، زنانہ لب ولہجہ اور منظر نگاری پر بھرپور قدرت حاصل تھی، تمام جزئیات پر وہ اس طرح نظر ڈالتے ہیں کہ ان کے مختصر سے بیان سے پوری تصویر کھینچ کر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے ، وہ لکھنؤی  تہذیب ومعاشرت  کی رگ رگ سے واقف تھے اس لئے انہوں نے اسی ماحول کے پس منظر  میں لکھنؤی زندگی کے ہر پہلو کو بڑے دلکش اور فن کارانہ انداز میں پیش کیا ہے ، ان کی شاہکار ناول 'امراؤ جان ادا ' انسانی زندگی کے حقیقی اور رومانی پہلو کا بڑا حسین امتزاج ہے،حالانکہ اس ناول کا محور ایک طوائف ہے اور اس زمانے میں طوائفوں کا کوٹھا محض ذہنی و جسمانی عیاشی کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ ان کا کوٹھا تہذیب واخلاق کی آماجگاہ بھی ہوا کرتا تھا ، شرفاء اپنے بچوں کو آداب مجلس سیکھنے  کیلئے وہاں بھیجا کرتے تھے ، اس میں طوائفوں کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ،سہیل  بخاری لکھتے ہیں کہ"  امراؤجان ادا مرزارسوا کا بہترین ناول اور اردو زبان کا مایہ ناز شاہکار ہے"،علی عباس حسینی بھی لکھتے ہیں کہ "مرزا صاحب کا یہ ناول (امراؤجان ادا) مجموعی حیثیت سے اردوکا شاہکار ہے اور اس پر ہماری زبان جتنا فخر کرے بجا ہے "، اور ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے' امراؤ جان ادا کو اردو ادب کے افسانوی ادب میں ایک سنگ میل بتایا ، بے شک یہ ناول رسوا کو جاوید کرگیا، لیکن مرزا رسوا کے تنقیدی اور تراجم فن فلسفہ و منطق پر کوئی ذکر نہیں ملتا، یہ مرزا کی علمی قابلیت اور ان کی اردو ادب کی نثری خدمات کے تئیں ناانصافی ہے جبکہ مرزا نے 12 سال حیدر آباد میں ترجمہ نگاری میں بھی گزارے، مرزا رسوا  کی تنقیدی صلاحیت کو نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ اردو ادب میں بھی وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ حقدار تھے۔

 مرزامحمد ہادی رسوا ٹائیفائیڈ کے مرض میں مبتلا ہوکر 21 اکتوبر 1931ء کو حیدرآباد میں وفات پائی اور ترپ بازار میں راجہ مرلی دھر کا باغ، جہاں مرزا مقیم تھے اسی باغ کے عقب میں تدفین ہوئی.

مرزاہادی رسوا کی شاہکار تصنیفات کی فہرست درج ذیل ہے

1.   امراؤ جان ادا

2.   اختری بیگم

3.   خونی عاشق

4.   خونی جورو

5.   لیلی مجنوں

6.   شریف زادے

7.   ذات شریف

8.   ڈرامہ منظوم

9.   افشائے راز

10.     بہرام رہائی

11.        خونی بھید

12.   مثنوی لذت فنا

13.   مثنوی بہار مند

14.   مثنوی امید وبیم

15.    کلیات اردو

16.   جوزف آف لاجک (ترجمہ)

17.     طلسمات

18.    افلاطون کی حکومت جمہوریہ

19.    کتاب الاخلاق نقوماجس

20.   زیح مرزائی درہئیت

21.     تاریخ فلسفہ اسلام

22.    مفتاح الفلسفہ

23.   حکمت الاشراق

24.   معاشرتی نفسیات

25.   مبادی علم النفس

26.   مفتاح المنطق (دو حصے)

27.    کتاب اخلاق ارسطو

28.   فیڈرس،لائسیس اور بروطاغورس