Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

تعارف

معین احسن جذبی

ان کا  اصلی نام  معین احسن  اور تخلص جذبی تھا، ان کی پیدائش21 اگست 1912ء  کو مبارک پور اعظم گڑھ میں ہوئی، آباء و اجداد کا تعلق میرٹھ کے ایک علمی خانوادہ سے تھا، 1857ء کے غدر کے بعد ان  کے خاندان نے پہلے  پٹنہ  ہجرت کی پھر لکھنو آگئے، ان کے دادا  عبد الغفور طبیب تھے اور مطیر تخلص کے ساتھ شاعری کرتے تھے، ان کے والد علی گڑھ کے گریجویٹ اور محکمہ تعلیم میں سب  ڈپٹی انسپکٹر تھے، جب یہ چار سال کے تھے تبھی ان کی والدہ کی وفات ہوگئی تھی اس کے بعد ان کی پرورش ان کے دادا اور ان کی پھوپھی خاتون اکرم نے کی جو کہ خود بھی ادیبہ تھیں اور ان کی شادی علامہ راشد الخیری کے بیٹے رازق الخیری سے ہوئی تھی، ان کی ماں کے انتقال ہوجانے کے بعد والد نے دوسری شادی کرلی تھی لیکن ان کی سوتیلی ماں کا رویہ ان کے ساتھ اچھا نہیں تھا اور والد بھی تند اور سخت مزاج تھے، گھر کے حالات سے تنگ آ کر آخر اپنے ماموں کرنل محمد حبیب کے پاس بھوپال چلے گئے اور آگے تعلیم کا حصول ماموں کی مالی اعانت سے کیا، ان کی ابتدائی تعلیم اینگلو عربک اسکول دہلی میں ہوئی،  دادا نے ان کی تعلیم کا بندوبست جھانسی کے اسکول میں کیا جہاں وہ خود بھی رہائش پذیر تھے اور انہوں نے یہیں سے ہائی اسکول پاس کیا، 1931ء میں سینٹ جانسن کالج آگرہ سے ایف ایس سی کیا، 1936ء میں اینگلو عربک کالج موجودہ ذاکر حسین کالج  سے گریجویشن کیا، 1938ء میں ممبئ سکریٹریٹ میں بطور مترجم عملی زندگی کا آ غاز کیا، یہاں محض چار ماہ ہی گذارے، پھر ماڈل اسکول بھوپال میں ٹیچر ہوگئے۔ انہوں نے یہاں دس مہینے تک اپنی خدمات انجام دیں، 1940 میں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹرز کیا اسکے بعد رسالہ"آج کل" کے معاون مدیر ہوگئے، 1942ء میں استعفیٰ  دے کر اس سے علیحدگی اختیار کر لی، 1945ء میں شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لکچرر مقرر ہوئے، 1956ء میں پروفیسر رشید احمد صدیقی کی زیر نگرانی "حالی کا سیاسی شعور"  کے عنوان سے ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا، 1961ء میں ریڈر ہوئے، 1974ء میں اپنے فرض منصبی سے سبکدوش ہوگئے۔

جذبی اپنے ابتدائی دور کی شاعری میں ملال تخلص رکھتے تھے لیکن بعد میں جذبی اختیار کیا، شاعری کا شعور گھر کے ماحول سے مل چکا تھا، جھانسی کے ادبی ماحول نے اس میں مزید نکھار پیدا کیا، ابتدا میں انہوں نے حامد شاہجہانپوری اور صادق جھانسوی سے اصلاح لی، آگرہ میں دوران تعلیم  فانی بدایونی اور میکش اکبر آبادی کی صحبت میں رہنے کا بھی موقع ملا، لیکن بقول جذبی شعر وادب کی باریکیوں اور تخلیقی نکات کے سلسلے میں ان کی رہنمائی انگریزی کے پروفیسر خواجہ منظور حسین نے کی جو کہ تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کر گئے تھے، علی گڑھ میں تقرری کے بعد انہوں نے  ترقی پسند ادب کی انجمن قائم کی جس میں اس وقت کے  ترقی  پسند مصنفین جیسے کہ سید منہاج الدین، خلیل الرحمن اعظمی، اصغر عباس زیدی وغیرہ شامل تھے.

معین احسن جذبی شاعر، ادیب اور نقاد تھے، یوں تو جذبی کا شمار ترقی پسند شعراء میں ہوتا ہے لیکن ترقی پسند ہونے کے باوجود بھی انہوں نے اپنی بات کہنے کے لیے غزل ہی کو وسیلہ بنایا، ان کی نظمیں  بھی معمولی نہیں ہیں، جو لطف و صداقت ان کی غزلوں میں ہے وہی نظموں میں بھی ہے، ان کی ابتدائی شاعری غم والم، درد  و فراق، بےچینی و بے تابی اور غم ہجراں سے بھری ہوئی ہے، ان کی شاعری میں احساس زیاں کا عنصر حاوی ہے، ان کا لہجہ غم سے زیادہ حزن وملال کا ہے، ان کے غم کی کیفیت نفسیاتی نہیں بلکہ حیاتی اور تجرباتی ہے،  ماحول کا اثر ان کی شاعری پر عیاں تھا،لیکن ان کا غم فانی کے غم  کے جیسا نہیں تھا، یہ غم سے آگے کی دنیا کو تلاش کرتے ہیں غم کو اپنے اوپر طاری نہیں ہونے دیتے، جذبی کا کلام حقیقت پسند اور اثر آفریں ہے، ان کی غزلوں میں فکر کی تازگی اور زبان وبیان کی سادگی ہے، الفاظ کا موزوں انتخاب ان کے کلام کو دل آویز اورپر اثر بنا دیتا ہے، ان کی شاعری انسانی احساسات و جذبات سے عبارت ہے، عشق کا اظہار، حزن و ملال اور عشقیہ جذبات میں خلوص و صداقت ہے، جذبی اپنے کلام میں الفاظ کی بندش ، چستی ، انداز بیان کی برجستگی، نغمگی اور محاکاتی اقدار کو پوری طرح سمیٹ لیتے ہیں، کہیں کہیں یہ اپنے معاصرین کا رنگ بھی اختیار کرتے ہیں لیکن ان کا لہجہ منفرد ہی رہتا ہے بلکہ انہوں نے اپنے جذبات کو ہی اولیت دی ہے ، ان کی ٖغزلوں میں سنجیدگی، متانت ،توازن اور محبت کی کسک ہے، ان کی غزلوں میں غنائیت کا اثر کم وبیش ہر جگہ نمایاں ہے اور یہ ان کی شاعری کی خوبی ہے، ان کی غزلوں میں موضوعاتی تنوع ان کی ترقی پسند تحریک سے وابستگی کے اثر سے پیدا ہوا، اس کے علاوہ جذبی نے اردو شعر و شاعری کو وہ لب و لہجہ دیا جس میں کلاسیکی شاعری کی چاشنی بھی ہے اور بیسویں صدی کے قومی، ملکی، سیاسی و سماجی اور اقتصادی رجحانات کی عکاسی بھی، انہوں نے روایتی شاعری سے نہ ہی انحراف کیا اور نہ ہی گرد وپیش کےماحول سے بے خبر رہے، وہ اپنی مخصوص تکنیک سے ایک ہی کیفیت کے دوپہلو اجاگر کردیتے ہیں اور اسی تضاد سےتذبذب  اور کشمکش کی کیفیت پیدا کردیتے ہیں، انہوں نے اپنی غزلوں میں روایتی لفظیات، علامات اور استعارات کو معنوی وسعت دوسرے ترقی پسند شعراء سے پہلے دی۔

طویل عمر پانے کے باوجود جذبی نے شاعری بہت کم کی لیکن جو بھی کی اس کو ایک پہچان دی اور اردو ادب پر اپنے نقوش چھوڑے، ان کی شاعری میں سوز وگداز، نرمی، گھلاوٹ، ملائمت اور لہجے کی شائستگی ہے، ان کی شاعری میں جمالیاتی عنصر بھی ہے، ان کی غزلیں بحر مختصر اور بحر طویل دونوں پر مشتمل ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی معنویت اور انفرادیت نہیں کھوتی ہیں، ان کی شاعری میں کلاسیکیت کا عنصر غالب ہے، ان کی نظموں میں بھی ان کی غزلوں کی طرح کلاسیکیت اور رومانیت نمایاں ہے، نظموں میں ان کی سلیقہ مندی، ان کی نغمگی، ان کا محاکاتی دروبست اور ان کا احساس تعمیر زیادہ نمایاں ہے، انہوں نے اپنی نظموں میں جذبہ کی شدت، احساس کی تازگی اور شعری کینواس کو مختلف رنگوں سے مزین کیا ہے یہ جذبہ ان کی نظموں کے ساتھ غزلوں میں بھی یکساں طور پر ملتا ہے، ذہنی سرمستی کا رنگ ان کی نظموں میں مختلف بھی ہے اور منفرد بھی، ان کی نظموں میں حسن و عشق، کیف ونشاط اور رومانوی تصورات میں جذبہ کی شدت اور شگفتگی پائی جاتی ہے جو انہیں کا خاصہ ہے، دو لفظی، سہ لفظی، چہار لفظی تراکیب، اضافتوں پر مشتمل تراکیب اور مفرس لفظیات کے نمونے ان کی شاعری میں کم و بیش ہر جگہ مل جاتے ہیں، جذبی ایک ایسے ترقی پسند شاعر ہیں جنہیں تمام نظریات اور رجحانات کے لوگ پڑھتے اور پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کی تخلیقی فکر بالیدگی سے خالی اور سطحی نہیں ہے، یہی بات ان کی شاعری کو ترقی پسند تحریک کے زوال کے بعد بھی زندہ رکھے ہوئے ہے، فکر کی بلندی ہو یا فنّی تقاضوں کی پاسداری دونوں ہی اعتبار سے ان کی نظمیں عمدہ ہیں، داخلی اور خارجی کیفیات سے جو کشش پیدا ہوتی ہے وہ ان کا خاص وصف ہے، جذبی کی نظمیں بھی جمالیاتی شعور سے خالی نہیں ہیں، جذبی کے کلام میں پیرایہ بیان کی شائستگی اور لہجے کی شناخت انہیں ترقی پسند شعراء میں بہت ممتاز کرتی ہے۔

جذبی ایک شاعر کے ساتھ ساتھ محقق اور نقاد بھی تھے، انہوں نے اپنی تنقید میں بڑا ہی اعتدال پسند رویہ اختیار کیا ہے، حالی کے سیاسی شعور کی تحقیق میں ان کی ادیبانہ صلاحیت ان کی وسعت مطالعہ اور فکری زاویوں کا پتہ چلتا ہے، انہوں نے اپنے مجموعہ کلام کے مقدمے میں نثری اسلوب سے بھی اپنی نثری صلاحیت اور فکر وفن کو ثابت کیا ہے، انہوں صاف ستھری اور سادہ و سلیس زبان استعمال کی ہے اور ان کی شعری صلاحیت ہی کی طرح ان کا نثری اسلوب و انداز  بھی منفرد ہے، پروفیسر خلیق احمد نظامی رقم طراز ہیں کہ"جذبی صاحب نے جس طرح اس انفرادیت کو ابھارا ہے اور حالی کے خیالات کو مربوط اور منظم صورت میں پیش کیا ہے اس سے ان کی دقت نظر اور گہرے مطالعے کا پتہ چلتا ہے".

جذبی کو ان کی ادبی و شعری خدمات کے اعتراف میں مختلف ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں 1975ء میں غالب ایوارڈ، 1985ء میں افتخار میر ایوارڈ، 1992ء - 1993ء میں ہریانہ اردو اکادمی ایوارڈ، 1993ء -1994ء اقبال سمّان، 1993ء اردو اکادمی دہلی کا کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ، 2000ء میں غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کا اعزاز غالب، 2001ء میں امریکہ کا کنیز حسنین میموریل ایوارڈ وغیرہ۔

شارب ردولوی کے بقول ایک کم سخن، کم گو، کم آمیز شاعر اپنی 93 سالہ زندگی کے بعد 13 فروری 2005ء  کو مختصر علالت کے بعد اس جہاں سے رخصت ہوا، تدفین  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قبرستان میں 14 فروری 2005ء کو ہوئی.

ان کی تخلیقات مندرجہ ذیل ہیں :-

1.   فروزاں

2.    سخن مختصر

3.   گذار شب

4.    حالی کا سیاسی شعور

5.   کلیات جذبی

6.    نقوش

7.    نئے اور پرانے چراغ

8.   فکر وفن

اےغیرتِ غم آنکھ مری نم تو نہیں ہے

کوئی دل خوں گشتہ کا محرم تو نہیں ہے

اس بزم میں سب کچھ ہے مگر اے دل پر شوق

تیری سی طلب تیرا سا عالم تو نہیں ہے


جب محبت کا نام سنتا ہوں

ہائے کتنا ملال ہوتا ہے


نہ آئے موت خدایا تباہ حالی میں

یہ نام ہوگا غم روزگار سہ نہ سکا


یہی زندگی مصیبت یہی زندگی مسرت

یہی زندگی حقیقت یہی زندگی فسانہ


اس نے اس طرح محبت کی نگاہیں ڈالیں

ہم سے دنیا کا کوئی راز چھپایا نہ گیا


اللہ رے بے خودی کہ چلا جا رہا ہوں میں

منزل کو دیکھتا ہوا کچھ سوچتا ہوا


تری رسوائی کا ہے ڈر ورنہ

دل کے جذبات تو محدود نہیں


دل ناکام تھک کے بیٹھ گیا

جب نظر آئی منزل مقصود


جب کبھی کسی گل پر اک ذرا نکھار آیا

کم نگاہ یہ سمجھے موسم بہار آیا


ہے آج بھی نگاہ محبت کی آرزو

پر ایسی اک نگاہ کی قیمت کہاں سے لائیں


محبتوں میں یہ ایماں یہ چشم نم یہ تڑپ

بتوں سے ہم کو بہت کچھ ملا خدا کی قسم


اے حسن ہم کو ہجر کی راتوں کا خوف کیا

تیرا خیال جاگے گا سویا کریں گے ہم


پھر اے دل شکستہ کوئی نغمہ چھیڑ دے

پھر آ رہا ہے کوئی ادھر جھومتا ہوا


روٹھنے والوں سے اتنا کوئی جا کر پوچھے

خود ہی روٹھے رہے یا ہم سے منایا نہ گیا


مختصر یہ ہے ہماری داستان زندگی

اک سکون دل کی خاطر عمر بھر تڑپا کیے


اے موجِ بلا، ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارا کرتے ہیں


جب کشتی ثابت و سالم تھی، ساحل کی تمنا کس کو تھی

اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے


اداسیوں کے سوا دل کی زندگی کیا ہے

کوئی بتائے کہ خوابوں کی برہمی کیا ہے


یہ اہل دل کہ اڑاتے ہیں میرے غم کا مذاق

یہ بے حسی جو نہیں ہے تو بے حسی کیا ہے


جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں سے

جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے


اے حسن ہم کو ہجر کی راتوں کا خوف کیا

تیرا خیال جاگے گا سویا کریں گے ہم


اپنی نگاہِ شوق کو رسوا کریں گے ہم

ہر دل کو بے قرار تمنا کریں گے ہم


دانائے غم نہ محرمِ رازِ حیات ہم

دھڑکا رہے ہیں پھر بھی دل کائنات ہم


بیتے ہوئے دنوں کی حلاوت کہاں سے لائیں

اک میٹھے میٹھے درد کی راحت کہاں سے لائیں


تھی حقیقت میں وہی منزل مقصد جذبیؔ

جس جگہ تجھ سے قدم آگے بڑھایا نہ گیا