Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

تعارف

غلام ربانی تاباں

 

اصلی نام غلام ربانی اور تاباں تخلص تھا، 15 فروری 1914ء کو پتورا تحصیل قائم گنج ضلع فرخ آباد کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے، نسلاً افغانی اور پٹھانوں کے آفریدی شاخ سے تعلق رکھتے تھے، ان کے آباء و اجداد محمد شاہی عہد میں ہندوستان آئے، ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک مدرسہ میں چوتھی جماعت تک حاصل کی، اس کے بعد جارج اسکول قائم گنج میں ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی، 1927ء میں کرسچین کالج فرخ آباد میں داخلہ لیا اور 1931ء میں میٹرک پاس کیا، 1933ء میں علی گڑھ کالج سے انٹر میڈیٹ میں کامیابی پائی، علی گڑھ میں دوران تعلیم شعر وادب کے ذوق کو پروان چڑھانے میں ان کے استاد مولانا احسن مارہروی کا بڑا حصہ رہا، گریجویشن آگرہ کے سینٹ جانسن کالج سے مکمل کیا اور 1938ء میں اسی کالج سے ایل ایل بی بھی کیا، اس زمانے میں علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز آگرہ بھی تھا ، سیماب اکبرآبادی، مانی جائسی، میکش اکبرآبادی ، پروفیسر حامد حسن قادری ، طاہر فاروقی وغیرہ کی وجہ سے بھی آگرہ کا شہرہ تھا، تاباں نے یہاں اپنی شعری استعداد کو نکھارا ، ابتدا مزاحیہ شاعری سے کی "فرچٹ" تخلص اختیار کیا وہ استاد شاعروں کے کلام کی پیروڈی خود ان کی موجودگی میں سنایا کرتے تھے، پروفیسر حامد حسن قادری اور میکش اکبر آبادی کی صحبت نے ان کے ادبی ذوق کو جلا بخشی چنانچہ غزلیں کہنے لگے اور تاباں تخلص اختیار کیا، آگرہ میں شعر و شاعری کے ساتھ ساتھ سیاسی شعور کی بھی نشوونما ہونے لگی اور مارکسزم سے متاثر ہونے لگے، 1940ء میں  فتح گڑھ میں وکالت سے عملی زندگی کا آغاز کیا، لیکن اپنے پیشے سے پورے انہماک سے وابستہ نہ ہوسکے، زمیندار اور رئیس گھرانے سے تعلق تھا اس لیے مالی مشکلات کا سامنا نہیں تھا، فتح گڑھ میں عملی طور پر سیاست میں شامل ہوکر کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور 1949ء میں ریلوے مزدوروں کی ہڑتال میں حصہ لیا، چھ ماہ کی نظر بندی اور جیل کی سزا کاٹی، اسی درمیان ممبئی بھی گئے لیکن ناکامی ہاتھ لگی اور واپس آگئے، نومبر 1949ء میں  مکتبہ جامعہ دہلی میں کلرک کی حیثیت سے تقرری ہوئی اور 1957ء میں مکتبہ کے جنرل منیجر مقرر ہوئے، جنرل منیجر کی حیثیت سے انہوں نے مکتبہ کے کاروبار کی توسیع کی اور مکتبہ کو نئی بلندیوں پر پہنچایا، 1970ء میں مکتبہ کی ملازمت سے سبکدوش ہوگئے، مکتبہ کی ملازمت کے دوران انہوں نے ادبی اور تہذیبی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا، ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور پروگریسو رائٹرز کے چیئرمین بھی رہے، ایفرو ایشین رائٹرس کانفرنس کیلئے 1958 میں روس اور 1967 میں مصر گئے اور جرمنی کی مارکسزم کی ایسوسی ایشن کی دعوت پر 1965 میں یورپ بھی گئے، ان کا پہلا شعری مجموعہ "ساز لرزاں" 1950 میں شائع ہوا اور لدوسرا مجموعہ "حدیث دل" 1960ء میں شائع ہوا، تیسرا مجموعہ "ذوق سفر"  1970ء میں شائع ہوا.

 غلام ربانی تاباں شاعر، صحافی، مترجم اور سیاسی بصیرت کے حامل شخص تھے، انہوں نے شاعری کی ابتدا تو مزاحیہ شاعری سے کی لیکن پھر غزل کہنے لگے،  ترقی پسند تحریک سے وابستگی کے زیر اثر نظمیں بھی کہیں، ان کی نظموں میں محاکاتی رنگ جھلکتا ہے، انہوں نے اپنی نظموں میں محبوب کا سراپا کھینچا، واردات عشق کو بیان کیا لیکن ان عشقیہ جذبات کو سماجی مسائل سے مربوط کرنے سے پرہیز کیا، انہوں نے ترقی پسندانہ فکر اور کلاسیکی آہنگ کا ایک ایسا امتزاج پیدا کیا جو ان کی شاعری کی شناخت بن گیا، ان کی موضوعاتی نظموں نے حالات زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اپنے اندر سمو لیا، انہوں نے عوام کی خوشحالی و ترقی، طمانیت اور کل عالم انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے اپنے احساسات کو لوگوں تک پہنچایا، ان کی نظموں میں حسن فطرت ، شگفتگی و شیفتگی ، بے خودی  و سرشاری، نغمگی و دلکشی ہے، ان کی نظموں میں رومانوی رنگ پھیکا نہیں ہے، ان کی نظموں پر کرشن چندر کا اظہار خیال ساز لرزاں میں کچھ یوں وارد ہوا ہے کہ "تاباں صاحب نے اپنے شعری کارناموں کو تاریخی مادیت میں سمو کر پیش کیا ہے جس سے زندگی کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے"، ان کی غزلوں میں سیاسی رنگ نمایاں ہے، انہوں نے غنائی آہنگ میں اپنے جذبات و خیالات کو پیش کیا، ان کے نزدیک زندگی ایک جہد مسلسل ہے جہاں نشیب و فراز ہیں، کٹھنائیاں ہیں، دشواریاں ہیں، ان کی غزلوں میں کلاسیکی روایات و اقدار کا گہرا شعور ہے، ان کے کلام میں تصوف کا بھی رنگ ہے لیکن دنیا سے بے اعتنائی نہیں ہے، ان کی جمالیاتی بصیرت، فنکارانہ شعور اور لسانی دروبست کے گہرے سروکار سے ان کے تخلیقی انہماک کا سراغ ملتا ہے، اشتراکی ذہنیت اور ترقی پسند تحریک سے وابستگی کے باوجود انہوں نے اپنی غزلوں میں اپنے دور کے سیاسی و  سماجی حالات کو بھی موضوع سخن بنایا اور غزل کے استعاروں اور ایمائی اظہاریت کو نئی معنوی جہت دی، قدیم اسالیب فن اور جدید تحریکات کو بڑی خوش اسلوبی سے اپنی شاعری میں برتا، داخلی واردات کو محدود نہیں رکھا، ان کی غزلوں میں ایک زیریں لہر موجزن ہے جو ان کے ترقی پسندانہ خیالات کو، ان کے جذبات کو، عدم مساوات کو، ان کی انسانی دوستی کو اور ایک بہتر نظام حیات کی طرف گامزن رہتے ہوئے جینے کا حوصلہ دیتا ہے، انہیں اقدار وروايات سے ان کی غزلوں کا خمیر تیار ہوا ہے، اسی لئے نیاز فتحپوری ان کو مومن کے اسکول کا شاعر کہتے ہیں اور شارب ردولوی لکھتے ہیں کہ "تاباں صاحب کا نام نئی اردو غزل کا وہ نام ہے جس نے غزل کو مسموم اور گھٹی ہوئی فضا سے نکال کر نئی وسعتوں اور پہنائیوں سے آشنا کیا، اگر تاباں صاحب کی غزل نہ ہوتی تو اردو غزل آج نئے تجربات اور نئی وسعتوں سے آشنا نہ ہوتی"، ان کے کلام میں جہاں نظریہ کی استواری، عقیدے کی پختگی اور مسلک کی ثابت قدمی نظر آتی ہے وہاں وضع داری، رواداری اور دوستی و ہمدردی کی روایت بھی موجود ہے، انہوں نے خلوص زندگی سے اپنے اظہار فن میں صداقت و استقامت کے حوصلے کو جیا، واردات اور مشاہدات کے بیان کو بڑے حسن و سلیقہ سے پیش کیا، جو بیان کی صداقت اور زبان کی لطافت سے مل کر مزہ دو بالا کر دیتا ہے پروفیسر شہپر رسول لکھتے ہیں کہ "تاباں صاحب ایک بہترین غزل گو تھے نیز اپنے ہمعصر غزل گویوں میں اس اعتبار سے منفرد حیثیت رکھتے تھے کہ ان کی فکر اپنی تھی اور لفظ کے ساتھ ان کا Treatment دوسروں سے مختلف تھا، کلاسیکی لفظیات کے ساتھ نئی اور تازہ فکر کے ارتباط کے ذریعے انہوں نے ایسے شعری پیکر خلق کئے، جنہوں نے ان کی تخلیقی انفرادیت قائم کی اور غزل کو بھی نئی خوشبو سے ہمکنار کیا"، ان کے طرزِ احساس میں تازگی و ندرت ہے، ان کے کلام میں رچاؤ اور خوبصورتی ہے خیالات میں جدت اور ندرت ہے، انہیں خوبیوں سے اپنے معاصرین میں منفرد نظر آتے ہیں انہوں نے اصغر اور فانی کی غزل کی روایت کو برقرار رکھا ہے.

غلام ربانی تاباں نے سبکدوشی کے بعد بھی اپنا سفر جاری رکھا، انہوں نے کئی کتابوں کا ترجمہ کیا، اس کے علاوہ انہوں نے قدیم شعراء کے خاکے اور ان کی شاعری  پر علمی، تنقیدی، ہئیتی اور تاثراتی مضامین لکھے، تنقید میں قدیم معیار کو برقرار رکھا، ان کی تحریروں میں قدیم و جدید کا ایک خوشگوار امتزاج پایا جاتا ہے، انہوں نے ان مضامین میں سادہ و دلکش نثری اسلوب کو اپنایا، اس کے علاوہ صحافت میں بھی سرگرم رہے اور تاحیات اسی کام میں مصروف رہے، انہوں نے موضوعاتی صحافت میں فرقہ واریت کو موضوع بنایا اور ملک کے اندر فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لئے حکومت کی کوتاہیوں کے بھی شاکی رہے، ان کے مضامین خیال انگیز تھے جو ملک کی سالمیت، مشترکہ تمدن، قومی یکجہتی، رواداری اور ذہنی ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے میں بے حد معاون تھے، انہوں نے ملک کی مظلوم اقلیت کے مسائل پر قلم اٹھایا اور  اس کو اپنا مشن بنا لیا، سماجی بیداری کیلئے ہر ممکن کوشش کی، انہوں نے مظاہرے بھی کئے، احتجاج بھی کئے، بھوک ہڑتال بھی کی، انہوں نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں کو اپنے اظہار خیال کا ذریعہ بنایا اوران کے مضامین ان کی سیاسی بصیرت اور بالغ نظری کو ثابت کرتے ہیں، تاباں کثرت میں وحدت کے قائل تھے اور فرقہ پرستی کے سب سے بڑے مخالف تھے، علی گڑھ کے مسلم کش فرقہ وارانہ فسادات کے احتجاج میں انہوں نے 1979ء میں "پدم شری" ایوارڈ حکومت ہند کو واپس کردیا تھا۔

ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں 1971ء میں صدر جمہوریہ ہند نے ان کو  "پدم شری "ایوارڈ سے نوازا، 1972ء میں "ذوق سفر" کیلئے اردو اکادمی دہلی نے ایوارڈ دیا، 1973ء سویٹ لینڈ نہرو ایوارڈ اور دوہفتوں کی سویت یونین آنے کی دعوت دی گئی، 1976ء میں نوائے آوارہ کیلئے اترپردیش اردو اکادمی نے ایوارڈ دیا، 1979ء میں نوائے آوارہ کیلئے ساہتیہ اکیڈمی نے ایوارڈ دیا ، ڈاکٹر ذاکر حسین سابق صدر جمہوریہ ہند ان کے رشتہ دار اور خورشید عالم خان سابق کانگریسی لیڈر و گورنر ان کے بڑے بھائی اور سابق مرکزی وزیر کانگریسی لیڈر سلمان خورشید ان کے بھتیجے ہیں۔

7 فروری 1993ء کو غلام ربانی تاباں کا دہلی میں ان کی رہائش گاہ پر انتقال ہوا ان کا جسد خاکی ان کے آبائی وطن قائم گنج فرخ آباد لے جایا گیا جہاں ان کے خاندانی قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی.

ان کی شاہکار تصنیفات یہ ہیں :-

1.   سازلرزاں

2.    حدیث دل

3.   ذوق سفر

4.    غبار منزل

5.   نوائے اوارہ

6.    ہوا کے دوش پر (خاکے و تقاریر(

7.    شعریات سے سیاسیات تک

8.   Poetics to Politics

9.    ہندوستان کی معاشی تاریخ (دو جلدوں میں ترجمہ(

10. شکست زنداں

11.جدوجہد آزادی

12. جدوجہد آزادی اور مجلس قانون ساز کا رول