Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

تعارف

بیخود دہلوی

اصلی نام سید وحید الدین احمد اور تخلص بیخود تھا، ان کی پیدائش 22 فروری 1863ء میں ریاست بھرت پور راجستھان میں ہوئی، خاندان کے افراد مغلیہ سلطنت کے دور میں اعلی عہدوں پر فائز رہے تھے، اس کے علاوہ ان کے اسلاف اپنے علم و فضل اور ذوق شعر وادب میں بھی نمایاں اور ممتاز تھے، ان کے بزرگ شاہ نظام الدین عرف شاہ جی نے دہلی میں شاہ جی کا تالاب اور شاہ جی کا چھتہ تعمیر کروایا تھا، قدیم دہلی کی تاریخ میں ان کے خاندان کا ذکر موجود ہے، ان کا سلسلہ نسب بائیسویں پشت میں شیخ عبد القادر جیلانی سے جا ملتا ہے، دادا سید بدر الدين احمد جو سالک تخلص رکھتے تھے، مرزا غالب کے شاگرد تھے، والد سید شمس الدین احمد "سالم" تخلص رکھتے تھے جب کہ دو چچا "موزوں" اور "فرد دہلوی" کے نام سے شعر و شاعری کرتے تھے، ان کے تینوں ماموں منشی کرم اللہ خان شیدا، حکیم عبداللہ خان رسا، مولوی عبد الرحیم خان بیدل دہلوی بھی شاعروں میں الگ مقام رکھتے تھے، ان کی پرورش و پرداخت لال قلعہ میں ہوئی، ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور چند ہی سال میں عربی فارسی و دیگر درسیات کی کتب مکمل کرلیں، مولانا الطاف حسین حالی سے مہر نیم روز اور دیوان غالب اور دیگر فارسی کے دیوان پڑھے، فن عروض وبیان سیکھا اور 12 سال کی عمر میں شاعری کی ابتدا کی، پہلے نادر تخلص رکھا پھر بیخود کرلیا، شروعات میں حالی سے اصلاح لی، پھر حالی کے مشورہ پر داغ دہلوی سے استفادہ کیا لیکن جب حالی علی گڑھ جانے لگے تو حیدر آباد میں سکونت پذیر  داغ سے شاگردی کا مشورہ دیا اور اس طرح بیخود اپنے ماموں بیدل دہلوی کے ہمراہ حیدر آباد چلے گئے، وہاں مرزا داغ سے زبان و بیان میں مہارت حاصل کی اور اکتساب فن کے لئے حیدر آباد میں ان کے ساتھ وقت گذارا اور ان کی صحبتوں سے فیض اٹھایا، بیخود بہت ہی ذہین و فطین اور روشن دماغ تھے انہوں نے قلیل عرصہ میں اس فن میں مہارت حاصل کرلی، مرزا داغ دہلوی بیخود سے اس قدر خوش اور مطمئن تھے کہ ان کو اپنی زبان کہا کرتے تھے  انہوں نے ہی بیخود کو "وحید العصر" کا خطاب دیا تھا ، مرزا داغ دہلوی سے کسی نے آخری وقت میں سوال کیا آپ کے جانشین کون ہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ"بیخودین"، یعنی بیخود دہلوی اور بیخود بدایونی، ان کو داغ ثانی اور داغ کا سچا جانشین بھی مانا جاتا ہے۔

لیکن سائل دہلوی اور بیخود دہلوی کے درمیان داغ کی سچی جانشینی کو لے کر کشمکش تھی، سائل داغ کے داماد تھے اس لئے اپنے آپ کو جانشین سمجھتے  تھے، جبکہ بیخود کا کہنا تھا کہ داغ دہلوی نے اپنے شاگردوں کا رجسٹر (یہ وہ دفتر ہوتا ہے جس میں شاگردوں کے احوال و کوائف اور ان کے کلام پر دی گئی اصلاح بھی درج ہوتی ہے) انھیں کے حوالے کیا ہوا تھا اور اصلاح سخن کے لئے بھی ان کو ہی مکلف کیا ہوا تھا ، اس کے علاوہ سائل کا اپنا بیٹا بھی باپ کے بجائے بیخود سے ہی اصلاح لیا کرتا تھا اور یہ ذمہ داری خود سائل نے ان پر ڈالی تھی۔

مزے کی بات یہ ہے محفلوں میں خوب جھگڑتے اوررات میں ایک دوسرے کے گھر حال واحوال کے لئے بھی آیا جایا کرتے تھے۔

بیخود متمول اور صاحب جائیداد تھے لیکن پھر بھی ذوق و شوق کیلئے درس وتدريس کے پیشے کو ذریعہ معاش بنایا، انہوں نے انگریزی افسران اور غیر اردوداں طبقے کو اردو فارسی کی 32 برسوں تک تعلیم دی جس سے ان کی دوسری زبانوں پر دسترس اور علمی قابلیت کا بھی پتہ چلتا ہے، خاندانی روایات کے مطابق فن سپہ گری میں بھی مہارت حاصل تھی، صوفی منش انسان تھے ، صوم و صلاۃ کے بھی پابند تھے، اس کے علاوہ تعویذ، گنڈے اور بھوت پریت بھی اتارتے تھے۔

تقسیمِ ہند کے بعد بھی یہ ہندوستان میں ہی رہے ، حالانکہ ان کی اولاد ان کے انتقال کے بعد ہجرت کرگئی، 1948ء سے 1952 تک وزیر اعظم نہرو کی جانب سے وظیفہ ملتا رہا، وزارت تعلیم نے بھی وظیفہ مقرر کیا لیکن وہ زیادہ عرصہ تک جاری نہ رہ سکا ، ان کی مالی امداد ان کے دو مالدار شاگرد لالہ شنکر لال شنکر اور لالہ مرلی دھر شاداں نے کی، ان کے تلامذہ کی تعداد سینکڑوں تک پہونچتی ہے.

بیخود دہلوی بحیثیت شاعر، ناول نگار اور غالب شناسی کیلئے مشہور و معروف ہیں، انہوں نے یوں تو مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی مگر ان کی غزلیں ان کی شاعرانہ عظمت کی پہچان ہیں ، ان کی شاعری کلاسیکی انداز کی شاعری تھی، انہوں نے شاعری میں داغ کے زبان و بیان، مومن کی مضمون آفرینی اور غالب کے انداز بیان کی پیروی کی ، ان کی شاعری میں عشقیہ خیالات کی شدت ہے، حسن وعشق کے بیان میں روایت کے پابند نہیں ہیں، ان کے کلام میں خلوص ہے، جذبات محض جذبات نہیں بلکہ صداقت پر مبنی احساسات ہیں ، ان کی شاعری میں صوفیانہ خیالات ، اخلاقی اقدار ، دنیا کی بے ثباتی ، شرافت انسانی، صداقت و مساوات اور انسانی خلوص و محبت کے مضامین بھی پائے جاتے ہیں، خمریات کا تصور بھی موجود ہے،

ان کے کلام میں پائی جانے والی شوخی ، رنگِ ظرافت ، سادگی و شیرینی اور فصاحت وبلاغت اسے دلکش بناتی  ہے ۔

ان کی شاعری میں روایتی مضامین کثرت سے پائے جاتے ہیں لیکن ان روایتی مضامین میں ان کا اپنا تجربہ، اپنا احساس اور جذبہ بھی شامل ہے جو ان کی شاعری میں شگفتگی پیدا کردیتا ہے، منظر نگاری، واقعہ نگاری، سیرت نگاری، اخلاق، ہمدردی، فلسفہ، وسعت نظر اور حقیقت پسندی کی روح جابجا دکھائی دیتی ہے، وہ الفاظ کے زبردست پارکھی تھے، ان کے ہاں ثقیل الفاظ نہیں ملتے، انھیں روز مرہ کے محاورات اور ضرب الامثال کے برجستہ اور دلآویز استعمال پر قدرت حاصل تھی، آسان اور عام فہم الفاظ میں فصاحت و بلاغت اور سوز و گداز ان کی شاعری کاخاصہ تھا ، وہ شیریں، مترنم اور منتخب الفاظ استعمال کر کے اپنے اشعار کو پر کشش بنانے کے فن سے بخوبی واقف تھے، مومن اور سائل دہلوی کی طرح اپنے تخلص کا بھی بڑی خوبصورتی کے ساتھ استعمال کرتے تھے ، بیخود ایک قادر الکلام اور کہنہ مشق شاعر تھے، مشکل سے مشکل مضمون کو عام فہم الفاظ کے ذریعے نظم کرنے میں مہارت رکھتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ شاعری بیخود کا فطری ذوق اور آبائی میراث تھی، بیخود اپنےفکر وفن اور رنگ و آہنگ میں معاصرین میں دہلی کی ٹکسالی زبان کے علمبردار کہلائے جاتے ہیں اور دہلوی انداز غزل کے استاد کی حیثیت سے اوج کمال پر نظر آتے ہیں، وہ دبستانِ داغ کے سب سے بڑے نمائندہ تھے یہی نہیں بلکہ داغ نے بذات خود ان کو استاد کے مرتبہ پر فائز کیا تھا، مشاعروں میں ان کی شرکت مشاعروں کی کامیابی کی ضامن ہوا کرتی تھی، تقسیم ہند کے بعد لال قلعہ کا جشن آزادی کا مشاعرہ اور آل انڈیا ریڈیو کا 60 سال سے اوپر عمر کا مشاعرہ تاریخی اہمیت رکھتا ہے جس میں ان کو صف اول میں شامل کیا گیا.

بیخود شاعر کے ساتھ ساتھ ایک عمدہ نثر نگار اور غالب شناس تھے ، انہیں ناول اور افسانے سے بےحد لگاؤ تھا ، اس کے مطالعے کے بھی شوقین تھے، انہوں نے ایک ناول "ننگ و ناموس" لکھا جس میں پردے کی خوبیوں اور خامیوں پر بحث کی گئی ہے، انہوں نے یہ ناول عبد الحلیم شرر لکھنؤی کے ناول "بدرالنساء کی مصیبت" کے جواب میں لکھا تھا جس میں پردے کی مروجہ خرابیوں پر بحث کی گئی تھی اور عبد الحلیم شرر نے ملک کے ادباء کو ہمنوا بنانے کے سلسلے میں خط و کتابت بھی کی تھی، شاہد احمد دہلوی گنجینہ گوہر میں بیخود دہلوی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ "میرے پاس بھی شرر کا اسی مضمون کا خط آیا تھا، میں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا، البتہ اس کے جواب میں ناول ننگ و ناموس لکھ کر شائع کروادیا"، ناول میں بیخود نے دہلی کی ٹکسالی زبان، اور اپنے خاص انداز بیان اور محاورات اور اشعار کا استعمال کر ننگ و ناموس کی نثر کو دلکش بنادیا، اس ناول سے ان کے مطالعے کی وسعت اور دور اندیشی اور مذہبی اقدار و روایت کی سمجھ کا سراغ ملتا ہے، اس کے علاوہ نثر میں انہوں نے دیوان غالب کی شرح "مرآۃ الغالب" مولانا محمد حسین آزاد کے نواسے آغا طاہر کی فرمائش پر لکھی، آغا طاہر کی دیرینہ خواہش تھی کہ دیوان غالب کی کوئی ایسی شرح لکھی جائے جو دہلی کی ٹکسالی زبان اور دہلوی انداز بیان کے معیار پر پوری اترسکے، جس سے غالب کے کلام کو غالب کے ہی انداز میں سمجھا جاسکے، آغا طاہر نے اس کام کے لئے استاد بیخود کو راضی کیا, انہوں نے اشعار کی شرح میں بڑی محنت، عرق ریزی اور گہرے غور وفکر سے کام لیا اور مشکل سے مشکل مفاہیم کو آسان سے آسان انداز میں بیان کرکے دہلویت کا حق ادا کردیا، انہوں نے اپنے استاد حالی کی کتاب یادگار غالب کا بھی سہارا لیا تاکہ استاد غالب کے کلام میں کہیں کوئی کسر باقی نہ رہے، اسی وجہ سے بیخود دہلوی کا نام شارحین غالب میں سرفہرست ہے.

داغ ثانی اور وحید العصر بیخود دہلوی  نے مختصر علالت کے بعد 2 اکتوبر 1955ء کو وفات پائی اور تدفین درگاہ خواجہ باقی باللہ دہلی میں ہوئی

ان کی تصنیفات اور مجموعے مندرجہ ذیل ہیں :-

1.   گفتار بیخود

2.    درشہوار بیخود

3.   مراۃ الغالب

4.    ننگ و ناموس