
میں نے چیلنجز سے بھرپور زندگی گزاری ہے.. کشاکش زندگی ہی میں زندگی پائی، کبھی ہمت شکنی کا گزر نہیں ہوا.. اداس بہت بار ہوا، ہارا نہیں.. لیکن اب زندگی کا پڑاؤ کچھ الگ سا ہے.. سب سے اٹل لیکن سب سے سنگلاخ حقیقت موت ہی ہے.. موت کا ذکر لذتین توڑتا ہے تو اس کو بار بار دیکھنا سننا اور اپنوں پر طاری ہونا عزم وحوصلہ اور دل توڑ دیتا ہے..ربع قرن کی خودساختہ فرقت نے جب تھکا دیا اور محسن استاد مولانا واضح رشید رح کی یاد نے دل مسوسا تو حجاب کے جالے یکلخت توڑ کر لکھنؤ چلاگیا..مشفق استاد سے مصافحہ کی گرمی ہتھیلیوں سے نکلی بھی نہیں تھی، کہ محض پانچ دن بعد ان کی وفات حسرت آیات دل یخ کر گئی.. اور جب سے یہ سلسلہ رک نہیں رہا... اسی سفر میں رفیق درس نیاز احمد اعظمی اور حفظ الرحمن سے ملاقات رہی اور زیادہ وقت ہم تینوں کا ساتھ گزرا.. اس وقت ندوہ میں سرما کی تعطیل تھی اور میرا سفر بے ترتیب بے منصوبہ تھا محض ایک وفور شوق کا نتیجہ تھا، سارا ماحول خالی تھا.. ہم تینوں نے ساتھ وقت گزارا اور ایک دن اور ایک شام ساتھ گزری اور طالب علمانہ گزری.. ساتھ وقت گزارنے کی طلب اور گزرے وقت کی دل آویزی اتنی پرکشش تھی کہ شفیق استاد کی کھانے کی دعوت چھوڑی... دونوں نے یاد دلایا کہ استاد دسترخوان پر انتظار کریں گے میں نے کہا اساتذہ کے ساتھ نیت باندھ کر کھانا کھانا پڑتا ہے، ہم امین آباد میں ساتھ ہوٹل میں کھانا کھائیں گے اور استاد کی شفقت میں ہمیشہ ڈھکا سا رہتا ہوں میرے لئے کارسازی کار دشوار نہیں...اب مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ ملاقات ہی آخری ملاقات بن کر رہ جائے گی.. اور طویل وقفہ کے بعد یکجائی محض لمحہ تجدید عہد وفا بن کر رہ جائے گی.. حفظ الرحمن دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد ندوہ آئے تھے، تخصص فی الأدب میں ساتھ رہے، ہلکی پھلکی دیوبندیت اور ندویت چلتی رہتی.. اور پرلطف باتیں رہتیں انتہائی پر محبت.. کبھی کبھی گراں خاطری نہیں ہوئی.. وہ بڑی حساس طبیعت کے مالک تھے، غیور اور خوددار.. شکوہ سنجی بھی بذلہ سنجی کے انداز میں کرتے.. حق مانگنے میں کوتاہ، اور حق تلفی پر خندہ زن.. جس دن سے سامنا ہوا آخری سانس تک ہمارے تعلقات ہموار رہے.. ہمہ رنگ اور متنوع صلاحیتوں کے مالک تھے.. انگریزی مفردات سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا.. سنسکرت سے بھی لگاؤ تھا اور وہ زیادہ سیکھنا چاہتے تھے.. یہ معلوم نہیں کہ انھیں موقع ملا یا نہیں.. پڑھنے کا جنون تھا.. میں اور ہمارے مشترک دوست وہم سبق سید فخرالدین سجاد حسینی جو کڈپہ ضلع آندھراپردیش کے مشہور مرشد گھرانے کے تھے جب کینٹین میں چائے پینے یا ناشتہ کرنے جاتے تو ٹیبل پر بیٹھتے ہی نیچے پڑا ہوا کاغذ کا کوئی ٹکڑا اٹھاکر چپکے سے ان کو دے دیتے اور یہ مصروف مطالعہ ہوجاتے.. بسا اوقات ان کی چائے کا کچھ حصہ خرد برد ہوجاتا اور موصوف کو چنداں خبر نہ ہوتی.. یہ اس فقیر منش کے احوال تھے.. ملنگوں سے زیادہ بے احوال تھے.. دنیا خوب جانتے تھے برتنا نہیں جانتے تھے.. قناعتوں میں گزار کر قناعت ہی سیکھتے رہے.. حفظ الرحمن نے ایک ناآسودہ زندگی پوری آسودگی سے گزاردی.. یہ گر ہے تو اس عہد جدید میں اب ناپید ہے.. میرا دوست زندگی کا بوجھ ڈھو کر چلا گیا لیکن جیتے جی کسی پر بوجھ نہیں ڈالا.. خوشا زیست کرد... الوداع..اس دنیائے دنی سے اور صد مرحبا کسی گلگشت جان فزا میں.. اللہ تمہاری قبر کو نور سے بھردے، وہ سب کچھ دے جو تم چاہو۔