
یقین تو میرا پختہ ہے کہ طالبان اوریجنل لوگ ہیں.. سردوگرم چشیدہ، مشکل ترین وقت کی بھٹی میں تپیدہ.. صدیوں پرانی قبائلی روایتوں سے بندھے گوندھے.. پہاڑی سادگی اور کہساری قوت برداشت سے آمیزہ.. جہاں یہ تمام خصوصیات اصالت کی آئینہ دار ہیں، وہیں قدرے عزلت کا عنوان بھی ہیں.. عزلت اپنی خصوصیات کی حفاظت کے لئے ایک درکار حالت ہے لیکن آج کے گلوبلائزیشن کے دور میں ناممکنات کے دائرے میں ہے.. آپ میری سوچ سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن میرا خیال یہی ہے کہ طالبان کو تبدیلیوں کے مطالبے پر محتاط رہنا چاہئے اور بین الاقوامی یا خارجہ ضرورتوں کو اپنی مزاجی قبائلی اور داخلی صورت حال اور تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنا چاہیے.. بودے عربوں کی طرح خود کو مغرب سے قریب رکھنے کے خبط میں مبتلا ہوکر نئی نئی قلابازیوں سے دور رہنا چاہئے.. ایسی حرکتوں سے باز رہنا چاہئے جو ان کے عوام اور ان کے معاشرتی اقدار کو تلپٹ کردیں...خلیج اور امریکہ کی صدی کی ڈیل، صدی کی سب سے بڑی ڈیل کم، اور صدی کی سب سے بڑی بدی زیادہ ہے.. کیا ستم ظریفی ہے کہ متحدہ عرب امارات میں اسرائیل کا پہلا منحوس سفیر در آیا اسی وقت کابل سے اعلان ہوا کہ ہم اسرائیل کے علاوہ ہر ملک سے سفارتی تعلقات رکھنا چاہیں گے،، امریکہ سے بھی بشرطیکہ وہ اس کا خواہشمند ہو.. مجھے خوش گوار حیرت ہورہی تھی جب سہیل شاہین ہندوستانی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مشورہ دے رہے تھے کہ پاک افغان تعلقات کے بارے میں فضول باتیں میڈیا پر بند کی جائیں.. اس کا واضح پیغام یہ ہے کہ طالبان وسعت نظری سے کام تو لیں گے لیکن دوسروں کے مفادات کے لئے اپنے اصول پر سمجھوتہ نہیں کریں گے... عربوں کو خوش کرنے کے لئے اپنے سیاسی و معاشی محسن، اور پڑوسی ایران کو اپنی اگلی خارجہ پالیسی میں ہرگز نظرانداز نہیں کریں گے، بلکہ اس قربت کو علاقائی سیاسی قوت کا مرکزہ بنائیں گے.. جس کا اشارہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی دیدیا ہے.. یہ بات بالکل کھلی ہوئی ہے کہ تیز رفتار معاشی وصنعتی ترقی اور استراتیجک دفاعی بلاک کا حصہ بننے کے لئے تیسری دنیا کے ہرملک کے لئے کسی بڑی عالمی قوت سے خصوصی تعلق رکھنا از حد ضروری ہے، طالبان نے اس حلیف کا انتخاب کرلیا ہے، اور دوسرے طاقتور حلیف کے لئے دروازہ کھلا رکھا ہے.. یہ چین اور روس ہیں.. ماہرین کا کہنا ہے کہ برق رفتار فوجی کارروائی اور صوبوں کے تیزی سے سقوط اور کنٹرول میں چین روس پاکستان اور ایران نے زبردست مدد کی ہے.. پنج شیر کے کنٹرول اور احمد شاہ امراللہ صالح اور فہیم دشتی کی پوزیشن ٹریکنگ میں پاکستانی انٹیلی جنس نے کمال کی مہارت دکھائی.. ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل فیض حمید سب سے پہلے کابل پہونچے، یہ انتہائی اہمیت کا حامل دورہ تھا.. چار دہائیوں سے زائد عرصہ سے جنگ کی آگ میں جھونکا ہوا ملک نئی تبدیلیوں کے ساتھ، بے پناہ داخلی اور خارجی چیلنجز سے نبرد آزما رہے گا.. لیکن یہ طالبان کو قبول کرنا پڑے گا.. نرم چہرے کے ساتھ گرم آنکھوں کا سہارا لینا پڑے گا.. قبائلی روایتیں ہمیشہ پس ماندگی کی نقیب نہیں ہوا کرتیں.. بلکہ امن عامہ کی مثالی پائیداری بھی ایک اہم ماحصل ہے جو کسی غیر قبائلی معاشرے کو آج بھی حاصل نہیں ہے.. دنیا میں جرائم کی سب سے کم شرح انھیں قبائلی معاشروں میں موجود ہے.. اس کو داخلی استحکام، اور امن عامہ کی پائیداری کے لئے استعمال کرنا چاہئے، جس سے طالبان خوب واقف ہیں... امید کی جاتی ہے کہ طالبان طبابت اور تعلیم میں خواتین کے باوقار کردار کو اپنی قوت بنائیں گے اور ماضی کے پرخشونت رویے پر ضرور نظرثانی کریں گے.. عفو عام کا اعلان بہت خوش آیند ہے اس کو مزید وسیع کیا جائے گا.. حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ جیسے سیاستدانوں سے استفادہ ایک اچھی پہل ہے جو جاری رہنی چاہئے.. اچھی بات یہ ہے کہ اس وقت ساری دنیا نے افغانستان کی مدد کرنی شروع کردی ہے.. قدرے افسوس ہے کہ سعودی عرب کی امدادی ترسیل کچھ جھینپی جھینپی سی ہے.. سعودی عرب کو ایران کی مصنوعی مسلکی دشمنی ترک کرنا چاہئے یا کم از کم دوسرے ہمسایوں پر نہیں تھوپنا چاہیے.. سب کو معلوم ہے کہ ایران سے دشمنی دین ومسلک کی وجہ سے نہیں، بلکہ آقا کے حکم کی تعمیل کی مجبوری ہے.. اگر دین وجہ نزاع ہوتو اسرائیل سے دوری سب سے زیادہ ہونی چاہئے.. جبکہ ایسا نہ تھا نہ ہے.. یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے بجائے قطر اور ترکی کا کردار افغانستان میں زیادہ سرگرم اور ثمر آور رہا ہے.. برادر ملکوں کی بات ہمیشہ الگ ہوتی ہے.. اگر اجیت دوول جیسے سنگھی ذہن پھسڈی چڑی مار افغانستان میں اپنی کھلی نامرادی کے باوجود ہاری جنگ جیتنے میں نہ لگے رہیں تو، میری خواہش ہوگی کہ افغانستان، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں ہندوستان سے سستی ترین خدمات حاصل کرے.. اور نئی قوت اس ضمن میں پیش رفت کرسکتی ہے.. ہم نے جو کھویا وہ کھویا، ہمارا غیر ذمہ دار میڈیا سب کچھ گنوانے پر تلا ہوا ہے... طالبان کی اپنی پہچان ایفائے عہد ، سخت مزاحمت، آزادی سے محبت ہے، اس میں اگر امداد باہمی، اخوت و ہم آہنگی اور معاشی قانون میں سود اور استحصال سے پاکی شامل کرلیں تو یہ پہچان سب سے گہری اور خدا اور بندگان خدا سے قربت کا وسیلہ بن جائے گی.