Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

افغانستان ..ہندوستان..نہ جھپی نہ گھمسان

افغانستان ..ہندوستان..نہ جھپی نہ گھمسان

ایک ہندوستانی شہری کی حیثیت سے میری خواہش تھی کہ ہماری خارجہ پالیسی افغانستان کے بارے میں پرانی غلطیوں کی اسیر نہ بنے، نئے حالات کا معروضی جائزہ لیا جائے اور حقیقت پسندی سے کام لیا جائے.. پرائی آگ میں مجبوری میں بھی نہ کودا جائے.. اس میں شک نہیں کہ آج کل گلوب ایک گاؤں ہے، اور اس میں بہت جڑ کر رہنا پڑتا ہے، کچھ بین الاقوامی بندشیں بھی اپنا کام کرتی ہیں.. اور وسیع تر مربوط مفاد کے پیش نظر بہت کچھ وہ کرنا پڑتا ہے جو ہمارے معلنہ اصولوں سے بظاہر متصادم ہوتا ہے.. تاہم اصول اصول ہی ہوتے ہیں.. ہندی چیلنجز کے مقابلے میں حکومت ہند کا رویہ بہت معتدل اور مبنی بر عقل تھا، جس سے میری امید کو سہارا مل رہا تھا.. آج دوحہ میں سفارت خانہ ہند میں طالبان نمایندوں سے ملاقات نے جمی ہوئی برف پگھلائی ہے.. ابتدائی بات چیت کا سب سے پہلا ایجنڈا ہندوستانی شہریوں کی بحفاظت اور بعجلت انخلاء رہا ہوگا اور وہی ہونا چاہئے تھا.. لیکن اس انخلاء کے عمل میں بلاوجہ سکھوں اور ہندوؤں کی پخ لگا کر ہندوستان اپنا وزن کم نہ کرے.. یہ بڑی بدبختی اور بدشکلی ہوگی.. بات ہندوستانی شہریوں کی ہونی چاہئے بلاتفریق.. انخلاء میں سکھوں اور ہندوؤں کی ترجیح ناقابل فہم ہے اور بلاجواز ہے.. شہری شہری ہے چاہے وہ جو بھی ہو.. بات چیت میں اب معاشی ترجیحات کو آگے رکھا جائے اور ان دیکھے کنکشن دور رکھے جائیں.. انفراسٹرکچر کے وہ بڑے پروجکٹس جن میں ہندوستان کی بڑی سرمایہ کاری ہے زیر بحث آنے چاہئیں.. اس وقت طالبان کی سب سے بڑی ضرورت زیر تکمیل منصوبوں کی تکمیل ہے.. جو معاشی خوشحالی اور اقتصادی حرکیت کی خشت اول ہیں.. معاشی بہتری کے بغیر امن وامان کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا جو طالبان کی پہچان ہے.. محض بے رحمی کے ساتھ سخت گیر قوانین کا نفاذ بے سود ہے.. اس سے معاشرے میں بددلی اور نفور بڑھتا ہے.. جو افغان شہری باہر جانا چاہتے ہیں وہ دو طرح کے ہیں.. ایک وہ جن کا ماضی بہت داغدار ہے اور وہ قانون کے دائرے میں لائے جاسکتے ہیں.. کیونکہ کرزئی اور اشرف غنی دونوں حکومتوں میں کرپشن عروج پر تھا.. اور پرانے حساب بے رحمی سے چکائے گئے تھے.. دوسرے لوگ معاشی غیریقینی اور ابتری کے ڈر سے بھی ملک چھوڑنا چاہتے ہیں.. طالبان ان کو روکنا چاہئں گے اور روکنے کی کوشش کرنی چاہیے.. آبادی کی ہجرت کسی ملک کی ذہنی صلاحیتوں کی ہجرت ہوتی ہے.. اور ملک کی صورتحال کی خرابی کی علامت باور کی جاتی ہے.. ہندوستان پرانے منصوبوں کی تکمیل اور نئے پروجکٹس میں سرگرم شمولیت کے امکانات تلاش کرے.. جس کی افعانستان کو سخت ضرورت ہے.. ایک روش مکمل طور پر ترک کرنی پڑے گی.. چین اور پاکستان کی گھیرا بندی اور ان سے تعلقات کی سطح متاثر کرنے کی سوچ اب بالکل کارآمد نہیں رہی.. افغانستان پاکستان کے درمیان روایتی اور تاریخی تعلقات ہیں،دونوں کی بڑی ابادی مشترک قبائل پر مشتمل ہے.. وہ کسی طرح مثاثر نہیں کی جاسکتی.. چین سے افغانستان کے روابط بڑھ چکے وہ کم نہیں کئے جاسکتے.. اس لئے ان دو نوں پہلوؤں پر وقت ضائع کرنے کا فائدہ نہیں.. افغان پالیسی سے پاکستان کو گھیرنے اور چین کی برابری کا خبط تج دینا بہتر اور ضروری ہے..افغان خارجہ تعلقات کو اب سیاسی کے بجائے معاشی جہت دینا وقت کا تقاضہ ہے.. امید کہ ہمارا ملک اب اس جہت پر کام شروع کرے گا.. اور لکیر کا فقیر نہیں بنا رہے گا.. اگر ہندوستان کو طالبان پسند نہ بھی ہوں تو رکھ رکھاؤ تو رکھنا ہی پڑے گا.. اپنی آئیڈیالوجی طاقتور سے طاقتور ممالک بھی برآمد نہیں کرسکتے تو ہم کیا ہیں.. سفارت کاری آئیڈیالوجی برآمد کرنے اور سیاسی تصورات تھوپنے کا نام نہیں.. تعلقات کے امکانات تلاش کرنے اور باہمی تعاون کی نئی نئی جہتوں کی دریافت کا نام ہے... افغانستان کی نئی صورتحال کو  دیکھنے پرکھنے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے.. نہ جھپی ڈالنے کی ضرورت ہے اور ہی بلاوجہ گھمسان کی... پالیسی کی ناکامی ملک کی ہار نہیں ہوا کرتی