Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

یکطرفہ مطالبہ طالبان سے کیوں؟

یکطرفہ مطالبہ طالبان سے کیوں؟

غلبہ اور تسلط پسندی کی اپنی ایک الگ ہی نفسیات ہوتی ہے.. جو مبنی بر تعقل نہ ہونے کی وجہ سے بسا اوقات متضاد رویوں کی غماز ہوتی ہے.. ہار کی جھلاہٹ اس نفسیات کو مزید پیچیدہ بنادیتی ہے.. امریکہ کی سرپرستی میں 48 سرکش اور بے لگام گھوڑے ایک غریب پسماندہ کم تعلیم یافتہ مسلمان ملک کو اپنی ٹاپوں سے روندنے نکل پڑے اور بیس اکیس سال دندنانے رہے.. B52 کی کارپٹ بمباری، کلسٹر اور ڈرٹی بموں کی بارش نے افغانستان کے کوہ وکہسار کے سینے پھاڑ دئے لیکن افغانوں کے سروں پر سجی غیرت کی دستار میلی بھی نہ کرسکے.. افغان نہیں بدلے اور نہ بدلنے پر اصرار کی قیمت لاکھوں جانوں کے نذرانے سے پیش کی.. یلغاری بدل گئے اور حملے کی پیش قدمی پسپائی میں بدل گئی.. غلبہ اور تسلط کے بجائے ہزیمت اور شکست ملی.. ٹوٹ پڑنے والوں کی ہر چیز بدل گئی.. اب مطالبہ پھر انھیں لوگوں سے ہے کہ وہ اپنے آپ کو بدلیں.. جو طاقت اور قہر وجبر سے نہ بدلے جاسکے وہ میدان مارلینے کے بعد چند حرفی مطالبوں سے کیسے بدل جائیں گے اور کیوں؟ آج افغانوں سے یہ مطالبہ کوئی جواز یا عقلی توجیہ نہیں رکھتا.. ان کو تسلیم کرنے کے لئے پیشگی مطالبات بالکل نامعقول بات ہے.. اب ارضی حقیقت کے بطور ان کو تسلیم کرنا چاہئے اور اعتدال کے ساتھ ان کو بین الاقوامی برادری کا حصہ بننے میں مدد کرنی چاہئے.. افغانوں نے بےجگری کی مزاحمت کے تصور کو پختہ کردیا ہے اور شاید دہائیوں بعد مزاحمت، بے مہار قوت سے جیتی ہے.. ان کو پھر مزاحمت کی طرف دھکیلنا ایک بڑی سیاسی غلطی ہوگی.. اور اس کے نتیجے میں مزاحمت برآمد ہوگی.. نئے نئے میدان کھلیں گے اور امن عالم خطرے سے دوچار ہوگا.. زیرک اور تجربہ کار سفارت کار اس راز کو سمجھیں.. میدان کی براہ راست ہزیمت کا بدل، جیتنے والے کی عزلت کاری نہیں بن سکتی.. طالبان کو الگ تھلگ کرنے کی غلطی بھاری پڑے گی.. اور یہ اندیشہ بڑا حقیقی ہے کہ شاید بین الاقوامی رائے عامہ منقسم ہوجائے اور پھر سے دوقطبی سیاسی بلاک وجود میں آجائے.. اب امریکہ کا روس چین ترکی اور ایران پر کوئی زور نہیں.. طالبان کے اچانک ابھر آنے سے پہلے ہی روس اور چین سے ان کی باقاعدہ مفاہمت ہوچکی ہے اور ایران ان کا دسیوں سال سے سیاسی ہیڈکوارٹر رہا ہے..برا ہو ہندوستان کے ہندی چینلز کا جو بکواس پر بکواس کرتے جارہے ہیں، ورنہ ہندوستان اتنا بے عقل نہیں ہے کہ وہ کچھ ہار کر سب کچھ ہار جائے.. حکومت کے حلقوں کی معنی خیز خاموشی بہت با معنی ہے... کچھ دن کی بلاتبصرہ خاموشی اور حالات کا جائزہ ایک بہتر حکمت عملی ہے.. یہ بلاوجہ باور کرلیا گیا ہے کہ ہندوستان سب کچھ کھو چکا ہے.. ملکوں کے حالات بدلتے بدلتے رہتے ہیں لیکن خارجہ پالیسی میں ایک خاص لچک ہوتی ہے جو تعلقات کو ٹوٹنے نہیں دیتی.. ہندوستان کا انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ محفوظ رہ سکتا ہے اور اس میں تسلسل آسکتا ہے اس کا امکان ہے، ہاں پاکستان کے پس منظر کی سیکورٹی استریتیجی ضرور بے اثر رہے گی اور بدلے حالات میں شاید اس کی اتنی معنویت بھی نہ رہ جائے.. طالبان کو ملک کی مکمل تباہ بنیادی سہولتوں کی باز تعمیر سب سے پہلے کرنی پڑے گی جس میں ہندوستان کی سرمایہ کاری زیادہ ہے.. اس امکان پر فوری کام شروع کرنا چاہئے اور ادھورے پروجکٹوں کو سیاسی نقطہ نظر کے بجائے اقتصادی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہئے.. ساری افغان پالیسی کو پاکستان کے پس منظر سے جوڑنے کی غلطی اب نہ دہرائی جائے.. اور طالبان سے خود کو بدلنے کی امریکی ڈیمانڈ سے ہندوستان الگ ہو اور اپنی خارجہ پالیسی میں مبنی بر ملکی مفاد تبدیلی کرے.. کوئی آپ کے لئے اپنے کو نہیں بدلے گا، آپ اپنے لئے خود کو بدلئے۔