
ميں نے چند روز پہلے " فائينانس اور اسلام: بحث وتحقيق كے بنيادى نقاط" كے عنوان سے ايك مضمون لكها، جسے بالعموم لوگوں نے موجوده اسلامك فائينانس كو سمجهنے كى سمت ميں ايك اہم مدخل شمار كيا، اس مضمون ميں ايك عبارت تهى: " تيسرا نقطه: مغرب كا معاشى نظام انسانوں كے لئے ہے، مسلمان بالعموم يہ سوچتے ہيں كہ چونكہ ہم انسان ہيں اس لئے ہم بهى اس نظام سے اسى طرح مستفيد ہو سكتے ہيں، اور ہم انسانى علوم كى اصطلاح سے دهوكہ كها جاتے ہيں، ياد ركهيں كه مغرب ميں انسان كا مفہوم الگ ہے اور اسلام ميں انسان كا مفہوم الگ ہے، دونوں انسانوں ميں اس سے زياده فرق ہے جو فرق بكرى اور خنزير كے درميان ہے، آپ مغرب كے انسانى علوم كو آسانى سے اسلامى نہيں بنا سكتے ۔"
استفسار:
مندرجه بالا عبارت كے حوالہ سے محترم محمد شاہد ندوى مقيم قطر نے استفسار كيا: " آپ کے مضمون کا اقتباس جس کی تصویر ہم نے اوپر بھیجی ہے ، وہ محتاج تشریح ہے ، آج شفٹ میں ہم لوگ آپ کے اس اقتباس پر بحث کر رہے تھے ، آپ سے گزارش ہے اس کی مزید تشریح فرمادیں۔"
جواب:
پہلے تو ميں جناب شاہد صاحب شكريہ ادا كرتا ہوں كہ ميرے مضمون كى جو عبارت انہيں مبہم نظر آئى اس پر كوئى رائے قائم كرنے سے پہلے خود صاحب مضمون سے وضاحت طلب كى، يہ ايك منصفانه رويہ ہے، اور مستفسر كے طالب حق ہونے كى دليل، الله تعالى ہم سب كو حق سمجهنے اور اس كا اتباع كرنے كى توفيق دے۔
جواب سے پہلے ايك مثال پيش ہے: اگر پہاڑى ميں ايك پتهر ہو تو وه اسے كسى گهر، مسجد، مندر ، شراب خانه يا كسى اور عمارت ميں لگايا جا سكتا ہے، اور وه پتهر كسى بهى جگه فٹ ہو سكتا ہے، اس كے برعكس اگر پتهر كى كوئى مورتى ہو تو اسے كوئى مسلمان اپنے گهر ميں نہين ركهے گا، اور اسے مسجد ميں ركهنے كى بات تو سوچ بهى نہين سكتا۔
دونوں ميں فرق يہ ہے كہ پہاڑى سے نكالا گيا پتهر صرف ايك پتهر ہے، اس كے ساته كسى قدر كا اضافہ نہيں، جبكہ پتهر كى مورتى صرف پتهر نہيں، بلكه اس كے ساته ايك قدر كا اضافه ہے، اور يه قدر سب كے نزديك يكساں قابل قبول نہيں۔
عصر حاضر ميں ايك اصطلاح ہے "انسانى علوم" ، جس ميں اجتماعيات ومعاشيات وغيره داخل ہيں، فائينانس (جس كے متعلق ميں نے گزشتہ مضمون لكها تها) معاشيات كا حصہ ہے، سوال يه ہے كہ انسانى علوم كے ساته كوئى اضافى قدر وابسته ہے كہ نہيں؟
اس سوال كا جواب دو حصوں پر مشتمل ہے، ايك يہ کہ انسان كيا ہے؟ دوسرے يہ کہ معاشيات كيا ہے؟ يعنى كيا ان دونوں كے ساته كوئى قدر وابستہ ہے؟
انسان اور اضافى قدريں:
باہمى تخاطب ميں غلطى كى ايك بنيادى وجہ يہ ہوتى ہے كه ايك لفظ كے متعدد مفہوم ہوں، اور مخاطب يه سمجھ بيٹهے كہ متكلم اسے اس مفہوم ميں استعمال كر رہا ہے جس سے مخاطب مانوس ہے، جبكه متكلم كے نزديك اس كا مفہوم بالكل مختلف ہوتا ہے، اسى طرح كے الفاظ ميں لفظ انسان بهى ہے، يه لفظ مغرب ميں جس مفہوم ميں مستعمل ہے وه اس سے قطعا مختلف ہے جسے قرآن كريم نے واضح كيا ہے، ذيل ميں چند فروق ذكر كئے جاتے ہيں:
.1مغرب ميں انسان ايك اتفاق كا نتيجہ ہے، اس كا كوئى خالق ورب نہيں، قرآن ميں انسان الله تعالى كے اراده، علم اور قدرت سے وجود ميں آيا ہے۔
.2مغرب ميں انسان خود مختار ہے، قرآن ميں انسان الله كا مملوك ومحكوم ہے۔
.3مغرب كے نزديك افكار واعمال كى قدريں صرف انسان كى مرضى سے طے ہوتى ہيں، قرآن ميں قدريں كائنات كے خالق كى طے كرده ہيں، اور انسان انہيں فطرت، حواس، عقل اور وحى سے جان سكتا ہے۔
.4مغرب ميں انسان كى زندگى اسى دنيا تك محدود ہے، قرآن ميں دنيا كى زندگى دار العمل ہے، اور آخرت دار الجزاء ہے
.5مغرب ميں انسان كا مقصد زندگى ہے آخرى حد تك لذت اندوزى اور آخرى حد تك منافع خورى، قرآن ميں انسان كا مقصد ہے خدا كى غلامى اور اس كى مرضى كا حصول خواه اس كے لئے لذتوں اور منفعتوں كو قربان كرنا پڑے۔
اس كے علاوه اور بهى فروق ہيں، يہاں ان پر اكتفا كرنے كى وجہ يہ ہے كہ ان سے واضح ہو جائے گا كہمغرب كا انسان اور قرآن كا انسان دو الگ الگ حقيقتيں ہيں، دونوں كا قبله جدا، دونوں كے مناہج جدا۔
انسان كے مفہوم ميں اس اختلاف كا اثر انسانى علوم پر بهى گہرا ہے، گفتگو چونكہ معاشيات كى ہو رہى ہے، اس لئے اس كے حواله سے اس فرق كو واضح كرنے كى كوشش كى جائے گى۔
معاشيات اور اضافى قدريں:
مغرب كے معاشى نظريات اور قرآن كے معاشى نظريات ميں اختلاف ہے، مغرب كا معاشى نظام مغرب كے انسان كے لئے بنايا گيا ہے، يہ معاشى نظام قرآنى انسان كى قدروں كے منافى ہے، اس نظام كو قرآنى انسان پر منطبق نہيں كيا جا سكتا۔
مغرب كے نزديك چونكہ انسان كا مقصد زندگى ہے آخرى حد تك لذت اندوزى اور آخرى حد تك منافع خورى ، اس لئے مغرب كے سارے معاشى نظريات اسى فكر كى عكاسى كرتے ہيں، ان سارے معاشى نظريات پر گفتگو طوالت كا باعث ہوگى، يہاں صرف اس نظريہ كے ذكر پر اكتفا كيا جائے گا جو مغرب ميں غالب ہے، وه نظريہ ہے: نيو كلا سيكل اكانومى (neoclassical economy) يا ماركيٹ اكانومى (market economy) كا، ہم ذيل ميں اس نظريہ كے بنيادى مفروضات كا قرآن كى روشنى ميں جائزه ليتے ہيں:
1. انسان كى خواہشات لا محدود ہيں، جبكه قرآن دنيا ميں انسان كى ضروریات وحاجات كو محدود بتاتا ہے، البته آخرت ميں اس كى خواہشات پورى كى جائيں گى۔
2 . ان خواہشات كو پورا كرنے كے وسائل محدود ہيں، جبكه قرآن كى رو سے ضرورات وحاجات كو پورا كرنے كے وسائل ميں بہتات ہے۔
3 . معاشيات اس كا نام ہے كہ وسائل كا استعمال كس طرح ہو كہ خواہشات پورى ہوں، چونكہ خواہشات لا محدود ہيں اس لئے ان كے لئے ترجيح كا عمل اختيار كيا جائے گا۔
4 . خواہشات كى ترجيح انسان كى مرضى كے تابع ہے، جبكه قرآن نے ترجيحات طے كرنے كے لئے مكمل ہدايات دى ہيں، وه انسان كى مرضى پر منحصر نہيں۔
5 . چونكه معاشى عمل كا مقصد زياده سے زياده لذت اندوزى اور منافع خورى ہے، اور وسائل محدود ہيں، لہذا لازمًا انسانوں كے درميان تنافس پيدا ہوگا، جبكه قرآن كے نزديك معاشى عمل كى بنياد تعاون پر ہے، اور قرآن نے تنافس كو مہلك قرار ديا ہے۔
موجوده اسلامك فائينانس اسى نيو كلاسيكا اكنامكس كى ايك شاخ ہے، ہمارے نامور اسلامك فائينانس كے ماہرين نے معاشيات كى تعريف سے ليكر سارى تفصيلات اسى نظريہ سے من وعن اخذ كر لى ہيں، انہيں يہ ياد نہيں رہا كہ بعض وه باتيں جنہيں وه اسلام كے نام سے رواج دے رہے ہيں وه كفر كے درجه ميں ہيں، اور بہت سے چيزيں ايسى ہيں جن كے حرام يا مكروه ہونے ميں كوئى شبہ نہيں، چونكہ ان تفصيلات كا يہ موقع نہيں اس لئے بات يہيں ختم كى جاتى ہے۔