Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

دین کی تبلیغ اور صحابہ کرام کا کمال دیانت - قسط ٢: ڈاکٹر محمد اکرم ندوی- آکسفورڈ

دین کی تبلیغ اور صحابہ کرام کا کمال دیانت - قسط ٢: ڈاکٹر محمد اکرم ندوی- آکسفورڈ

صحابہ اس مقدس جماعت کا نام ہے جن کو اللہ نے اپنے نبی کا ہمدم بنایا، اور جو پوری انسانیت پر اتمام حجت کے لئے بطور گواہ منتخب ہوئے، اور نبی کو سوپنی گئی تعلیم کا امین بنایا۔

اسی طرح  ذیل کی قرآنی آیتوں کی معنویت کا بالواسطہ ان کو مصداق بنایا

"وما أرسلناک إلا رحمة للعالمين"

)اے نبی ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔(

"وما أرسلناك إلا كافة للناس بشيرا ونذيرا"

)اے نبی ہم نے آپ کو تمام انسانوں کو اچھے انجام اور برے انجام کی حقیقت سمجھانے کے لئے بھیجا ہے۔ (

"تبارك الذي نزل الفرقان على عبده ليكون للعالمين نذيرا"

) کامل برکت والی ذات ہے وہ جس نے اپنے بندہ پر ایسا کلام نازل کیا جو حق اور باطل دونوں کو واضح کرتا ہے، تاکہ اس پیغام کے ذریعے پوری انسانیت کو ہوشیار کرے۔(

مشرق و مغرب میں  اللّٰہ کی طرف سے رحمت ہدایت کو عام کرنے کے لئے یہی گروہ نامزد کیا گیا، پھر انہی ہمدردان بشریت نے ہر سو جا کر بندگان خدا کو خدا و رسول کی فرمانبرداری پر کامیابی کا مزدہ سنایا، اور ان کی نافرمانی پر نامراد ہونے سے باخبر کیا۔

اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے انہیں اعتماد صرف اس لئے حاصل ہوا کہ وہ بات کے سچے تھے، اپنے کام کے پکے تھے، اسی لئے ان کی راست گوئی ایک حقیقت بن گئی، اور ان کے متعلق امت نے ان کے سچے ہونے پر ہر طرح کے تردد سے بالاتر ہوکر عمومی اعلان کردیا، جسے فن حدیث کے اصولی زبان میں "عدول" کہا جاتا ہے،  اور ان کو سچا ماننا "تعدیل" کہلاتا ہے۔

اس تعدیل کے دو درجے ہیں:

تعدیل خاص اور تعدیل عام

      اس ضمن میں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ دین کے نام پر صحابہ نے کبھی بھی منافقین پر اعتماد نہیں کیا، لہذا التحریر کی شرح التحبیر میں امام مرداویؒ حافظ مزیؒ کا قول نقل فرماتے ہیں :

" قال الحافظ المزي: من الفوائد أنه لم يوجد قط رواية عمن لمز النفاق من الصحابة رضي الله عنهم."

)بڑی خاص بات یہ ہے کہ صحابہ کے زمانے میں کوئی شخص اگر معمولی نفاق سے بھی متہم ہوا ہے تو اس شخص سے ایک روایت بھی ذخیرۂ حدیث میں نہیں ملتی۔ ٤/١٩٩٥(

اس حقیقت کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب منھاج السنۃ میں ذکر کیا ہے:

" والصحابة المذكورون في الرواية عن النبي صلى الله عليه وسلم، والذين يعظمهم المسلمون على الدين كلهم كانوا مؤمنين به، ولم يعظم المسلمون ولله الحمد على الدين منافقا"

وہ صحابہ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی باتیں نقل کی ہیں، اور اہل اسلام دین کے نام پر جن صحابہ کی عظمت کے قائل ہیں، ان صحابہ کا نبی کی ذات پر سچا ایمان تھا، اور اللہ کی شان کہئے کہ صحابہ نے دین کے نام پر کبھی کسی منافق  کو معزز نہیں جانا۔

  اوپر جو تعدیل کی دو قسمیں بیان ہوئی ہیں، اس کی وضاحت کرتے ہیں؛

تعدیل عام

سیرت اور تاریخ کا مکمل مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ صحابہ نے دین کے پیغام کی تبلیغ میں اپنی طرف سے کچھ شامل نہیں کیا، کسی آیت قرآنی میں نہ کوئی تحریف کی اور نہ نبی کی طرف نسبت کرکے کبھی کوئی جھوٹ بولا، اور یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ کوئی بندہ ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کرسکتا جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ کسی صحابی نے نبی کی طرف نسبت کرکے کوئی جھوٹ بات کہی ہے، یہی وہ بنیاد ہے جس کی وجہ سے امت میں یہ نظریہ مسلمہ حقیقت بن گیا کہ تمام صحابہ سچے، راست باز اور پاکیزہ صفت ہیں، اور یہ نظریہ اس پاکیزہ جماعت کے ہر مرد اور خاتون کے متعلق ہے۔

حافظ ابن عبد البر فرماتے ہیں :

فھم خير القرون وخير أمة أخرجت للناس ،ثبتت عدالة جميعهم بثناء الله عز وجل وثناء رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا أعدل ممن ارتضاه الله لصحبة نبيه صلى الله عليه وسلم ونصرته، ولا تزكية أفضل من ذلك، ولا تعديل أكمل منها"

[الإستيعاب١/٣]

صحابہ تاریخ انسانیت کی سب سے اچھی جماعت اور بہترین افراد ہیں جنہیں انسانوں کو کامیابی کی راہ پر لگانے کا ذمہ سونپا گیا، ان کی سچائی اور پاکیزگی پر قرآن کی آیات اور نبی کا فرمان شاہد ہے، اور اس سے بڑھ کر سچا ہو بھی کون سکتا ہے جس کے لئے اللہ نے اپنے نبی کا حامی و ہمدم ہونا مقدر کیا؟ ان کے پاکیزہ صفت ہونے کے حق میں اس سے بڑی اور کون سی دلیل چاہئے؟ اور ان کے سچے ہونے کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہوگا؟

حافظ ابن الصلاحؒ اپنی مشہور کتاب مقدمہ ابن الصلاح  میں ص/١٧١ پر لکھتے ہیں:

"إن الأمة مجمعة على تعديل جميع الصحابة، ومن لابس الفتن منهم فكذلك، بإجماع العلماء الذين يعتد بهم في الإجماع، إحساناً للظن بهم، ونظراً إلى ما تمهد لهم من المآثر، فكأن الله سبحانه وتعالى أتاح الإجماع على ذلك؛ لكونهم نقلة الشريعة."

پوری امت تمام صحابہ کے سچے ہونے پر متفق ہے، حتی کہ ان صحابہ کے سچے ہونے پر بھی اتفاق ہے جو کبھی کسی فتنے میں مبتلا ہوئے، اور یہ اتفاق امت کے عام افراد کا نہیں بلکہ ان علماء کا اتفاق ہے جن علماء کے کسی رائے پر متفق ہونے کو معتبر سمجھا جاتا ہے، یہ اتفاق ان صحابہ سے حسن ظن کا تقاضا ہے، اور جن کارناموں سے ان کی زندگی روشن ہے وہ بھی ہمیں اسی نتیجے پر پہنچاتے ہیں، اور ان کے متعلق پوری امت کا اس رائے پر متفق ہونا بھی منشائے الہی معلوم ہوتا ہے، اس لئے کہ انہی کو نبی پر نازل شدہ شریعت کی نشر و اشاعت کا بیڑا اٹھانا تھا۔

اسی طرح امام نوویؒ بھی فرماتے ہیں کہ :

"الصحابة كلهم عدول، من لابس الفتنة وغيرهم، بإجماع من يعتد به."

)التقريب والتيسير/٩٢(

تمام صحابہ سچے ہیں، جو کسی فتنے میں مبتلا ہوئے وہ بھی اور جو محفوظ رہے وہ بھی، اس رائے پر تمام معتبر علماء امت کا اتفاق ہے۔

علامہ ابن حجرؒ فرماتے ہیں :

اتفق أهل السنة على أن الجميع أي الصحابة عدول، ولم يخالف في ذلك إلا شذوذ من المبدعة."

)الإصابة في تمييز الصحابة١/١٠(

اہل سنت کا اس رائے پر اتفاق ہے کہ صحابہ تمام کے تمام سچے ہیں، اس رائے سے برائے نام اختلاف ہوا ہے، اور وہ بھی اہل بدعت نے کیا ہے۔

   جس اصطلاحی لفظ" عدول یاعدالت" کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ صحابہ سے کسی گناہ یا لغزش کا سرزد ہونا ممکن نہیں، صحابہ کے متعلق یہ نظریہ تو کسی کا بھی نہیں رہا، بلکہ ان کے "عدول" ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور رسول کی طرف نسبت کرکے جو باتیں انہوں نے بیان کی ہیں اس میں وہ بالکل سچے ہیں، اور جان بوجھ کر کبھی جھوٹ نہیں بولا۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ اپنی کتاب منھاج السنۃ میں فرماتے ہیں :

"الصحابة يقع من أحدهم هنات، ولهم ذنوب، وليسوا معصومين، لكنهم لا يتعمدون الكذب، ولم يتعمد أحد الكذب على النبي صلى الله عليه وسلم إلا هتك الله ستره" [١٣٦-١٣٧ / ١]

صحابہ سے لغزشیں بھی ہوئی ہیں، وہ گناہوں کے بھی مرتکب ہوئے ہیں، وہ معصوم نہیں تھے، لیکن جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتے تھے، اور اگر کسی نے دانستہ آپﷺ کی طرف جھوٹ بولنے کی جرأت کی ہے تو اللہ نے اس جھوٹ کا پردہ فاش کردیا۔

قاضی ابوبکر إبن العربیؒ فرماتے ہیں:

"ولیست الذنوب مسقطة للعدالة إذا وقعت منها التوبة"

)العواصم من القوام /٩٤(

کسی صحابی نے گناہ کے سرزد ہونے کے بعد اگر توبہ کرلی تو اس کے عدول یعنی سچے ہونے پر کوئی آنچ نہیں آتی۔

تعدیل خاص

صحابہ کی ایک مخصوص جماعت تھی جن کو امت کی بعض ذمہ داریاں سونپی جاتی تھیں، اور قرآن کی تعلیم، نبی کی سنت جاننے، مسائل و احکام سے واقفیت، بعض حالات کی معلومات اور حدیث کی روایت کے لئے جن سے رجوع کیا جاتا تھا، لہٰذا ضروری تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سچے ہونے کو امتیازی طور پر بیان فرمائیں، مثلاً خلفاء راشدین عشرۂ مبشرہ کے بقیہ صحابہ، عبداللہ بن مسعود، أم المؤمنين حضرت عائشہ اور دیگر امہات المومنین، معاذ بن جبل، أبی ابن کعب،أبو موسی اشعری، أبوہریرۃ، عبد اللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمرو بن العاص، جابر بن عبداللہ، أبو سعید خدری، اور أنس بن مالک رضی اللہ عنھم، یہ وہ مخصوص جماعت ہے جن کے متعلق آپ ﷺ نے ان کی امتیازی خصوصیات بیان فرمائیں، اور ان کی پاکیزگی کا مخصوص الفاظ میں ذکر فرمایا جس کی وجہ سے صحابہ دین سمجھنے اور سیکھنے کے لئے ان کو ترجیح دیتے تھے، اس مخصوص جماعت میں ان کے علاوہ کچھ نام ایسے صحابہ کے بھی ہیں جن سے مسائل اور احکام کے باب میں زیادہ روایتیں تو منقول نہیں ہیں، مگر ان کے بے مثال کارناموں نے ان کی شان بلند کی ہے، اور ان میں سر فہرست خالد بن ولید، مغیرہ بن شعبہ، معاویہ بن ابو سفیان اور عمرو بن العاص کے نام ہیں، ان میں سے اخیر کی دو شخصیات پر بالخصوص تفصیل سے تذکرہ کرتے ہیں، اس لئے کہ ان دونوں کی ذات کے تعلق سے بہت سے لوگ گمراہی کے شکار ہوئے ہیں۔

پہلی شخصیت:

*معاویہ بن ابو سفیان، جو کہ امیر المومنین رہے، اسلام کی تاریخ میں پہلے بادشاہ، مکہ میں قبیلۂ قریش کے خاندان بنو امیہ سے تعلق رکھنے والے تھے۔

روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد ابو سفیان سے قبل اس وقت اسلام سے مشرف ہوگئے تھے جب آپﷺ صلح حدیبیہ کے  ایک سال بعد اس عمرہ کی قضا کے لئے مکہ تشریف لے گئے تھے، مگر اپنے والد کے خوف سے دربار رسالت میں حاضری اور شرف ملاقات کی ہمت نہ جٹا سکے، البتہ فتح مکہ کے موقع پر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا، آپ ﷺ سے حدیثیں بھی نقل کی ہیں، اور چند ایک مرتبہ وحی کی کتابت کا شرف بھی حاصل ہوا، اپنی ہمشیرہ ام المومنین حضرت ام حبیبہ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے حدیثیں بھی روایت کی ہیں، اسی طرح عبداللہ ابن عباس، سعید ابن مسیب أبو صالح السمان، أبو ادریس الخولانی، ابو سلمہ ابن عبد الرحمن، عروہ ابن زبیر سعید المقبری، خالد ابن معدان، ھمام ابن منبہ، عبد اللہ ابن عامر المقرئ،، القاسم أبو عبد الرحمن، عمیر ابن ھانئ، عبادہ ابن نسی، سالم ابن عبد اللہ، محمد ابن سیرین، عمرو ابن شعیب کے والد، اور ان کے علاوہ ایک بڑی جماعت نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیثیں روایت کی ہیں، اور بعض صحابہ نے بھی حضرت امیر معاویہ سے حدیث روایت کی ہے، جن کے نام یہ ہیں :

*جریر ابن عبد اللہ، أبو سعید، نعمان ابن بشیر، ابن الزبیر۔

 ابن سعد کی روایت ہے :

حدثنا محمد بن عمر، حدثني أبو بكر بن أبي سبرة، عن عمر بن عبد الله العنسي، قال معاوية : لما كان عام الحديبية، وصدوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن البيت، وكتبوا بينهم القضية، وقع الإسلام في قلبي، فذكرت لأمي، فقالت: إياك أن تخالف أباك، فأخفيت إسلامي، فوالله لقد رحل رسول الله من الحديبية وإني مصدق به، و دخل مكة عام عمرة القضية وأنا مسلم، وعلم أبو سفيان بإسلام، فقال لي يوما: لكن أخوك خير منك وهو على ديني، فقلت لم آل نفسي خيرا، وأظهرت إسلامي يوم الفتح فرحب بي النبي صلى الله عليه وسلم وكتبت له، وعبد الرحمن بن أبي عميرة، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لمعاوية:اللهم اجعله هاديا، مهديا، واهد به. حسنه الترمذي، وعن أبي الدرداء قال: ما رأيت أشبه صلاة برسول الله صلى الله عليه وسلم من أميركم هذا، يعني معاوية، مات في رجب سنة ستين، وعاش سبعا وسبعين سنة، مسنده في مسند بقي"

مائة و ثلاثة وستون حديثا، وقد عمل الأهوازي مسنده في مجلد، واتفق له البخاري ومسلم على أربعة أحاديث، وانفرد البخاري بأربعة ومسلم بخمسة...

)سير أعلام النبلاء ١٦٣-١٢٠/ ٣(

حضرت عمر ابن عبد اللہ عنسی کہتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ نے مجھ سے بیان کیا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کفار مکہ نے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کی زیارت سے روک دیا، اور صلح پر بات ختم ہوئی، اسی وقت میرے دل میں اسلام داخل ہوگیا تھا، جس کا تذکرہ میں نے اپنی والدہ سے کیا، تو انہوں نے مجھ سے کہا: بیٹے ہرگز باپ کے دین کو نہ چھوڑنا، اس جواب کے بعد میں نے اپنے مسلمان ہونے کو راز میں رکھا، اللہ شاہد ہے کہ آپ ﷺ کے حدیبیہ سے رخصت ہوتے وقت میں آپ کے نبی برحق ہونے پر یقین کر چکا تھا، اور جب عمرے کی قضاء کے لئے آپ مکہ تشریف لائے ہیں تو وہ یقین ایمان میں تبدیل ہوچکا تھا، اسی دوران میرے والد ابو سفیان کو میرے مسلمان ہونے کی اطلاع ملی، تو ایک روز مجھ سے کہنے لگے، تیرا بھائی تجھ سے زیادہ ہوشمند ہے، اس نے تو میرا دین نہیں چھوڑا! جس پر میرا جواب تھا: میں اپنے آپ کو خیر سے محروم نہیں کرسکتا، اور جب مکہ فتح ہوا ہے تو اس دن  میں نے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا، لہٰذا آپ ﷺ نے میرے ساتھ بڑی کشادہ ظرفی کا معاملہ فرمایا، میں نے آپ کے حکم پر وحی کی کتابت بھی کی۔

اسی طرح عبد الرحمن ابن ابی عمیرہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ سے حضرت امیر معاویہ کے لئے یہ دعائیہ کلمات سنے:

اے اللہ معاویہ کو ہدایت پر باقی رکھ، اور راہ حق کی طرف دعوت دینے والا بنا، اور اس کو ہدایت کا ذریعہ بنادے،

اس روایت کو امام ترمذی نے حسن کا درجہ دیا ہے۔

اسی طرح حضرت ابو درداء سے روایت ہے کہ میں نے کسی کو نبی کریم ﷺ کے  موافق نماز پڑھتے ہوئے ایسا نہیں دیکھا جیسا کہ تمہارا یہ امیر پڑھتا ہے، اور ان کی مراد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے تھی۔

ان کا انتقال سنہ ٦٠ ھ میں ہوا ہے، ستہتر سال کی عمر ملی، ان کی سند سے منقول روایتوں کی تعداد "مسند بقی" مین ایک سو تریسٹھ  ہے، امام اھوازیؒ نے ان کی سند سے منقول روایتوں کو مستقل ایک الگ جلد میں جمع کیا ہے، ان سے روایت شدہ بخاری و مسلم میں متفق علیہ چار حدیثیں ہیں، ان سے الگ الگ روایتیں صحیح بخاری میں چار اور صحیح مسلم میں پانچ ہیں۔

      حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حذیفہ ابن الیمان سے پوچھا کہ میرے گورنروں میں کوئی منافق شخص تو نہیں ہے؟ حضرت حذیفہ نے فرمایا جی ایک شخص ہے، فرمایا کون ہے وہ؟ حضرت حذیفہ نے کہا میں نہیں بتاؤں گا، مگر وہ شخص معزول کردیا گیا، ایسا لگا کہ انہیں غیبی طور پر اس کی رہنمائی مل گئی تھی۔    [أسد الغابۃ ٢٤٨]

اس فیصلے سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ حضرت عمر کے زمانے میں امیر معاویہ معزول نہیں کئے گئے، جو ان کے نفاق سے بری ہونے کا ثبوت ہے۔

*دوسری شخصیت

عمرو ابن العاص ابن وائل جن کی کنیت ابو عبد اللہ یا ابو محمد تھی، اسلام سے مشرف ہوکر سنہ ٨ ھ کے شروع میں ہجرت کر کے آپ ﷺ کی خدمت میں مدینہ پہنچے، ان کے ساتھ حضرت خالد ابن ولید اور کعبہ کے کلید بردار عثمان ابن طلحہ بھی تھے، آپﷺ ان کی آمد اور حلقہ بگوش اسلام ہونے سے بہت خوش ہوئے، اور حضرت عمرو کو بعض لشکر کے امیر کے طور پر بھی مامور کیا، اور ان کے لئے ایک لشکر تیار کیا، ان سے بہت سی حدیثیں مروی ہیں، مکررات کے ساتھ ان کی تعداد چالیس تک پہنچتی ہے، جن میں متفق علیہ تین ہیں، علاحدہ طور پر صحیح بخاری میں ایک اور صحیح مسلم میں دو حدیثیں منقول ہیں، انہوں نے حضرت عائشہ سے بھی روایت کی ہے، اور ان سے روایت کرنے والوں میں ان کے بیٹے عبداللہ، ان کے آزاد کردہ غلام أبو قیس، قبیصہ ابن ابی ذؤیب، أبو عثمان النھدی، علی ابن رباح، قیس ابن ابی حازم، عروہ ابن زبیر، جعفر ابن المطلب ابن ابی وداعہ، عبداللہ ابن منین، حسن بصری نے مرسلا، عبد الرحمن ابن شماسۃ المہری، عمارہ ابن خزیمۃ ابن ثابت، ابو مرۃ عقیل کے آزاد کردہ غلام، ابو عبداللہ الاشعری، اور دیگر بہت سے نام منقول ہیں۔

 حضرت محمد ابن عمرو نے ابوسلمہ سے اور انہوں نے حضرت أبوہریرۃ سے روایت کی ہے:

قال النبي صلى الله عليه وسلم ابنا العاص مؤمنان، عمرو و هشام. قلت هذه تزكية عظيمة رغم أنوف الروافض، وروى عبد الجبار بن الورد ، عن ابن أبي مليكة ، قال طلحة : ألا أحدثكم عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بشيء ؟ إني سمعته يقول : عمرو بن العاص من صالحي قريش ، نعم أهل البيت أبو عبد الله ، وأم عبد الله ، وعبد الله، وعن قيس بن سمي أن عمرو بن العاص قال: يا رسول الله! أبايعك على أن يغفر لي ما تقدم من ذنبي؟ قال إن الإسلام والهجرة يجبان ما كان قبلهما. قال: فوالله إني لأشد الناس حياءا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما ملأت عيني منه، ولا راجعته.

)سير أعلام النبلاء ٥٥-٧٨(

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عاص کے دونوں بیٹے عمرو اور ھشام مؤمن ہیں، امام ذہبی کہتے ہیں : کہ یہ ان کے حق میں پاکیزگی پر بہت بڑی شہادت ہے، جو روافض کو ایک پل گوارہ نہیں! اسی طرح دوسری روایت حضرت طلحہ کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ کیا میں تمہیں آپ ﷺ کی طرف سے ایک بات نہ سناؤں؟ میں نے آپﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ : عمرو ابن عاص قریش کے نیک لوگوں میں ہیں، وہ، ان کے بیٹے اور ان کی اہلیہ یہ بڑا اچھا گھرانہ ہے۔

ایک روایت میں عمرو ابن عاص خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں مگر مجھے یہ امید دلائیں کہ میرے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسلام قبول کرنا اور ہجرت کرنا یہ ایسے دوعمل ہیں جن کی برکت سے پچھلے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں.

مزید انہوں نے اپنی یہ حالت بھی بیان کی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام لوگوں کی بہ نسبت زیادہ شرماتا ہوں، کبھی آنکھ بھر کے آپ کو دیکھنے اور آپ سے ہم کلام ہونے کی جرأت نہیں ہوئی۔

اس ضروری تفصیل کے بعد ان صحابہ پر کچھ تفصیل عرض کرتے ہیں جن کے متعلق سوال کیا گیا ہے، ان میں سے عمرو ابن عاص کا تذکرہ گزر گیا، بقیہ کی تفصیل پیش ہے:

*امیر عبداللہ ابن سعد ابن ابی سرح العامری جو بعض مواقع پر سپہ سالار بھی مقرر ہوئے، جن کی کنیت أبو یحییٰ ہے، قبیلہ قریش کے عامر ابن لؤی ابن غالب کے خانوادے سے تعلق ہے، حضرت عثمان کے رضاعی بھائی ہیں، آپ ﷺ کے صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے، اور ایک حدیث بھی روایت کی ہے، ہیثم ابن شفی جو مصر میں حضرت عثمان کے گورنر تھے، انہوں نے ان سے روایت کی ہے، روایتوں میں ان کے جنگ صفین میں  شریک ہونے کا ذکر بھی ملتا ہے، مگر دوسری روایتوں سے ان کی کنارہ کشی اور مقام رملہ میں گوشہ نشینی راجح معلوم ہوتی ہے، مصعب ابن عبد اللہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ کے دن  آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کرکے ابن ابی سرح کی جاں بخشی کروائی تھی، اس لئے کہ زبان رسالت سے ان کے قتل کا فرمان جاری ہوچکا تھا، اور یہی ہیں جنہوں نے افریقہ کی فتح کا کارنامہ تاریخ میں اپنے نام درج کروایا، امام دارقطنی کی ایک روایت ہے کہ یہ مرتد ہوگئے تھے، مگر آپ ﷺ نے ان کا خون بخش دیا، دوبارہ اسلام سے مشرف ہوئے، اور حضرت عثمان نے آپ ﷺ سے ان کو طلب کرلیا، ابن یونس کہتے ہیں کہ ابن ابی سرح عمرو بن العاص کے لشکر میں میمنہ میں تھے، بنو عامر کے گنے چنے شہسواروں میں شمار تھا، افریقہ کی محاذ آرائی میں موجود تھے، عسقلان کے گمنام علاقے میں رہائش اختیار کرلی تھی، حضرت علی اور حضرت معاویہ دونوں میں سے کسی سے بیعت نہ کی، اور سنہ ٥٩ میں انتقال ہوا۔

)سیر اعلام النبلاء٣٥ - ٣٣/ ٣(

*ولید ابن عقبہ ابن ابی معیط ابن ابو عمرو ابن امیہ ابن عبد شمس ابن عبد مناف، ان کی کنیت أبو وھب ہے، اموی النسب ہیں، گورنر بھی رہے، بہت مختصر مدت کے لئے دربار رسالت میں حاضری کا شرف ملا، اور حدیث کی روایت بھی بہت کم ہے، حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ماں شریک بھائی ہیں، فتح مکہ کے موقع پر مشرف بہ اسلام ہوئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی المصطلق کی طرف زکوٰۃ کی وصولی کے لئے بھیجا تھا، ان سے ابو موسی ہمدانی، امام شعبی نے روایت کی ہے، حضرت عثمان نے ان کو کوفہ کا گورنر بنایا، اور شام کے جہاد میں شریک ہوئے، اور جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ شہید کئے گئے تو جزیرہ میں جاکر کنارہ کشی اختیار کرلی، حضرت علی اور حضرت معاویہ کے درمیان محاذ آرائی میں کسی فریق کے ساتھ شامل نہیں ہوئے، طبیعت میں سخاوت تھی، تعریف و توصیف کو پسند کرتے تھے، شعر گوئی میں دسترس تھی، اور شراب بھی پیتے تھے، حضرت عمر نے ان کو بنی تغلب کی زکوٰۃ کا محصل بنا کر بھیجا، اللہ ان کو معاف کرے، اپنی بدعملی کے باوجود بہادر طبیعت تھے، اور اسلام کے نام پر محاذ آرائی کے موقع پر کبھی پیچھے نہیں رہے۔

)سیر اعلام النبلاء٤١٦-٤١٢ / ٣(

روایات کی تفصیل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی عادت سے توبہ کرلی تھی، اور توبہ کے بعد کے ان کے حالات قابل تحسین ہیں، اسی لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بنو تغلب کی تحصیل زکوۃ پر مامور فرمایا تھا، اور اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو کوفہ کا گورنر بنایا۔

)البدایہ و النہایہ - ١١/٦٠٤(

ان دونوں خلفاء کا امور حکومت کے مقاصد میں ان کو مامور کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سچے اور امانت دار  تھے، فسق سے توبہ کرلی تھی، امام سخاوی فرماتے ہیں :

ولید ابن مغیرہ اور اس طرح کی بعض شخصیات کے متعلق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو ذہن میں رکھنا چاہئے :

"لا تلعنه، فوالله ما علمت إلا أنه يحب الله ورسوله."

ان پر لعنت ملامت نہ کریں، ان کے متعلق یہی تجربہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتے ہیں، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت عمر کو حاطب ابن ابی بلتعہ کے متعلق حکم دیا تھا :

" إنه شهد بدرا، وما يدريك لعل الله اطلع على أهل بدر، فقال: اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم! "

ان کے متعلق سخت بات نہ کرو، یہ بدر میں شریک ہوئے ہیں، تمہیں کیا پتہ کہ اللہ نے ان کے مستقبل کو جان کر ہی تو یہ بشارت دی ہے کہ اے بدر میں شریک ہونے والے  جاں نثارو! میں نے تمہیں معاف کردیا، آئندہ جو اعمال  بھی تم سے صادر ہوں! 

اور اس شکل میں تو بطور خاص حسن ظن رکھنا چاہئے جب کہ انہوں نے اپنے کئے پر سچی توبہ کرلی ہو، اور ویسے بھی شرعی حدود تو اس گناہ کے کفارہ کی حیثیت رکھتے ہیں، ولید ابن عقبہ کے بارے میں یہ بات بطور خاص منقول ہے کہ بعض اہل کوفہ ان کے متعلق سخت بدگمانی کے شکار تھے، اسی لئے بہت سی جھوٹ باتیں پھیلا دیں، ان تمام تعلیمات اور تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ اس طرح کے موضوعات پر بحث و گفتگو سے مکمل گریز کیا جائے۔

ہماری اس بحث کا خلاصہ

ذکر کردہ تفصیل سے یہ واضح ہوا کہ صحابہ کی تعدیل کے دو درجے ہیں، ایک عام اور دوسرا خاص۔

 یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ آپﷺ  سے احادیث اور احکام و مسائل کی تعلیمات کا بیشتر حصہ صحابہ کی اسی جماعت سے منقول ہے جن کی راست گوئی اور خصوصیات اللہ کے نبی نے امتیازی طور پر ذکر کی ہیں، مگر ہمارے لئے دونوں جماعتیں یکساں محبوب ہیں، اور ان سے لا تعلقی جتانے والوں سے ہم بھی براءت کا اعلان کرتے ہیں، رہی بات ابن ابی سرح اور ولید ابن عقبہ کی تو ہم ان کے لئے بھی رضی اللہ عنہ کہیں گے، اور ان کے حق میں دعاء خیر کو کار ثواب سمجھتے ہیں، اس لئے کہ دین کی محبت اور اس کی خاطر ان سے قربانیاں ثابت ہیں، نہ تو وہ فقہاء صحابہ میں شمار کئے جاتے ہیں، اور نہ سابقین اولین میں، اور ان سے روایتیں بھی بہت کم نقل ہوئی ہیں، اور جو روایتیں نقل ہوئی ہیں ان کا  دین کی بنیادی تعلیمات سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے، امام ابن عبد البر الاستيعاب میں فرماتے ہیں : ولید ابن عقبہ سے ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے جو دینی ضرورت کے دائرے سے متعلق ہو!     [٤/١٥٥٦]

اسی طرح علامہ معلمی فرماتے ہیں :

صحابہ کی  عمومی راست گوئی اور ان کی مجموعی عدالت پر اعتراض کرنے والوں نے جس شخصیت کو سب سے بڑی دلیل بنایا ہے وہ ولید ابن عقبہ ہے، مگر اس سے جو روایتیں ہیں، وہ اپنے بھائی حضرت عثمان کی منقبت میں نہیں ہے، اسی طرح اپنی شراب نوشی کے دفاع میں بھی کچھ روایت نہیں کی، البتہ ایک روایت جو ان سے منقول ہے وہ اپنی سند کے اعتبار سے درجۂ صحت پر بھی نہیں، اور روایت کا مضمون بھی مختلف ہے، وہ روایت امام احمد اور ابو داؤد نے ذکر کی ہے:

أبو موسى عبد الله الهمداني عن الوليد بن عقبة قال:أبو موسى عبد الله الهمداني عن الوليدبن عقبة قال: لما فتح النبي صلى الله عليه وسلم مكة جعل أهل مكة يأتونه بصيبيانهم فيمسح على رءوسهم ويدعو لهم، فجئ بي إليه وأنا مطيب بالخلوق فلم يمسح رأسي، ولم يمنعه من ذلك إلا أن أمي خلقتني بالخلوق، فلم يمسني من أجل الخلوق. [الانوار الکاشفۃ /٢٧١]

فتح مکہ کے موقع پر اہل مکہ اپنے بچوں کو آپ ﷺ کی خدمت میں لاتے تھے، اور آپ ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے، اور ان کو دعائیں دیتے، مجھے بھی حاضر کیا گیا، مگر میرے سر پر لیپ تھی لہذا آپ نے میرے سر پر ہاتھ نہیں پھیرا، اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کی میری والدہ نے سر پر لیپ لگا رکھی تھی، اسی لیپ کی وجہ سے آپ نے میرے سر پر ہاتھ نہیں پھیرا.

یہ ایک روایت ہے جو حدیث کی دنیا میں ولید ابن عقبہ کی کل پونجی ہے، جب کہ ھمدانی راوی کی وجہ سے سند بھی اس کی صحیح نہیں ہے، اور رہا متن کا معاملہ تو اس میں کوئی ایسی غلط بات نہیں ہے جس کی بنا پر ولید کو متہم کیا جائے، بلکہ معاملہ برعکس ہے، اس لئے کہ اس روایت میں وہ خود صرف اس بات کی صراحت کر رہے ہیں کہ آپﷺ نے میرے سر پر ہاتھ نہیں پھیرا، مگر دعا کا لفظ ذکر نہیں کیا، اگر غور کیا جائے تو صحابہ کے سچے ہونے اور نبی کی طرف جھوٹ منسوب نہ کرنے کی یہ خود بھی ایک بڑی دلیل ہے!

یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ انبیاء کے بعد مومنین میں صحابہ کا مقام سب سے بلند ہے، جو دل کے بالکل صاف تھے، بات کے سچے تھے، امانت و دیانت کی صفت میں امت میں ان کے برابر کوئی نہیں، اور ان کے زمانے میں منافقین کی موجودگی سے ان کی راست گوئی اور سچائی پر کوئی داغ نہیں آتا، اور احادیث کی روایت میں بھی کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی۔

    امت روز قیامت اللّٰہ کے محاسبے سے خوفزدہ رہے، جس دن مال و اولاد کا بالکل سہارا نہ ہوگا، نہ نسبتیں کام آئیں گی اور نہ کسی کی حمایت، اسی طرح ڈرنا چاہئے اس دن سے جس دن تمہارے خلاف صحابہ کی وکالت خود نبی کی ذات کر رہی ہوگی۔

والحمد للہ رب العالمين، والصلاة والسلام علی رسولہ محمد وعلی آلہ وأصحابہ أجمعين.

٢٧/٠٧/٢٠٢١