Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

جھوٹ بھی سچ بول دیتا ہے | خورشید انور ندوی

جھوٹ بھی سچ بول دیتا ہے | خورشید انور ندوی

جھوٹ کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں

ناؤ   کاغذ   کی   سدا   چلتی   نہیں

مولوی اسماعیل میرٹھی کی اردو کی پہلی دوسری تیسری بھی کیا غضب کی کتابیں ہیں ، اگر پانچویں تک کوئی پڑھ لے تو اور کچھ اچھی طرح پڑھ لے تو چھوٹا موٹا نہیں باقاعدہ ادیب بن جائے گا ، اسی طرح فارسی کی ابتدائی کتابوں میں گلستان بوستاں پڑھائی دی جائے تو مرنے تک کی حکمت کی باتیں اور روز مرہ کی اچھی باتیں ازبر ہوجاتی ہیں ، پہلے کے لوگ زیادہ اچھے یہی کتابیں پڑھ پڑھ کر ہوتے تھے، اب لوگ زیادہ پڑھتے ہیں اور کم سمجھتے ہیں اور بہت ہی کم برتتے ہیں.

جھوٹ کی ٹہنی کا نہ پھلنا کوئی ان دنوں دیکھے لگتا تو یہی ہے کہ جھوٹ کی ٹہنی بڑھتی تو ہے پھلتی نہیں.. ہمارے ملک میں آفتوں اور بحرانوں پر قابو پانے کے لئے بھی جھوٹ ہی بولا جاتا ہے.. مگر جھوٹ کی ترکیب میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ خود ہی کھلتا ہے اور بولنے والے کو رسوا کرتا ہے.. یعنی کہ جھوٹ سچ بولتا ہے.. کل تک کرونا پر قابو پانے، حکمت پر مبنی اقدامات کرنے، سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہونے کے دعوے تھے.. کہا جارہا تھا کہ دنیا نے ہماری کامیابی تسلیم کرلی ہے، اور ہمارا لوہا مان لیا ہے ، جب کہ یہ بھی ایک جھوٹ ہی تھا.. دنیا نے یہ کہا کہ ہندوستان کے ڈیٹا پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا.. سچائی یہی تھی.. جس سفاکی اور پیش بندی کے بغیر شہر بند کئے گئے تھے وہ ایک گزری کہانی لیکن خونچکاں داستان ہے.. جن پر گزری ان سے پوچھئے.. دوسری لہر کا سامنا کرنے کی تیاری کا بہت وقت ملا.. اور پہلی لہر کا آدھا پکا آدھا کچا تجربہ بھی، لیکن دھیلے کی تیاری نہیں کی گئی.. انتخابات کا شیڈول دے دیا گیا جو ابھی بھی چل رہا ہے، بڑے بڑے مذہبی اجتماعات کے انعقاد کی ان دیکھی کی گئی.. 400 سو 500 سو کے قدرے محتاط اور منضبط اجتماع کی لالچی میڈیا کے ذریعہ ایسی تشہیر کی گئی جیسے کسی دشمن ملک نے یلغار کردی اور ملک کی چولیں ہلادی.. اور لاکھوں کے بے ربط تنگ ڈھڑنگ ہڑبونگ کو دیوی دیوتاؤں کے آشیرواد کا ملمع کیا گیا.. جس ملک میں ساڑھے تین لاکھ(350000) سے زائد یومیہ متاثرین ہیں اور تقریباً 3 ہزار (30000) اموات ہورہی ہیں وہاں الیکشن ہورہے ہیں.. ریلیاں اب رکی ہیں.. جب اپنی جانوں پر بن آئی ہے.. صحت عامہ کے اداروں کی تیاری کا یہ عالم ہے.. آکسیجن جیسی معمولی اور عام برتاؤ کی گیس نہیں ہے.. ہسپتالوں میں لوگ نلکی لگائے لگائے تڑپ تڑپ کر مرگئے.. حکومت کہتی ہے آکسیجن کی کمی نہیں پھر جرمنی کو دودن قبل آکسیجن پلانٹ کا آرڈر کیوں کیا گیا.. آکسیجن کی مشرقی ریاستوں سے مغربی وسطی اور شمالی علاقوں تک ترسیل کا انتظام کیوں نہیں کیا گیا؟ حکومتوں کا انتظام ایسے ہوتا ہے..؟ ویکسین برآمد کی گئی اور اندرون ملک سخت کمی ہے، جے شنکر جی کو بین الاقوامی کمٹمنٹ کی پڑی ہے.. اب اسپونٹک کے بنانے والے، پھر فائزر اور موڈرنا کو آرڈر کیوں دیا گیا؟ یہ اقدام درست ہے لیکن کیا یہ وقت تھا؟ یہ کام وبا کے پہلے مرحلے کے فوری بعد ہونا چاہیے تھا.. آگ لگنے کے بعد کنواں کھودنا کوئی عقل کا کام ہے؟ سچائی یہ ہے کہ ہمارے پاس بنیادی چیزوں کی کمی تھی اور جو ضروی چیزیں دستیاب تھیں ان کی فراہمی اور ترسیل کا کوئی منصوبہ نہیں تھا.. اب وحشت ناکی دیکھ کر اہل انتظام کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور فیصلہ ساز کرتب بازی بھول گئے.. سچائی یہ بھی ہے کوئی جانی پہچانی دوا اس دوسری لہر میں کارآمد نہیں ہے.. صرف اور صرف آکسیجن کا سپورٹ اور دیر تک اس پر رہنا ہی واحد کارگر حل ہے جو سخت کمیابی کی نذر ہے.. عام حالات میں آکسیجن سلنڈر 6 - 7 سو کا دستیاب ہوتا ہے آج ہزاروں میں نہیں مل رہا ہے.. ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ محلہ محلہ کمیونٹی سینٹرز پر اس کی دستیابی کرائی جاتی اور دس بیس منٹ کی آپریشن ٹریننگ نوجوانوں کو دی جاتی.. لیکن کوئی سنجیدگی اب تک نہیں ہے.. خبر یہ بھی مہاراشٹرا میں بعض سیاسی پارٹیاں اپنے لئے آکسیجن ٹینکرز بک کررہی ہیں جو بہت خطرناک رجحان ہے، اس سلسلے میں دیوندر پھڈنویس کا نام بھی میڈیا میں آرہا ہے جو سابق وزیر اعلیٰ ہیں اور اس وقت اپوزیشن فلور لیڈر ہیں.. کیا آفت کی اس گھڑی میں بھی کچھ جانبداری برتی جائے گی؟ یہ بہت المیہ کا رجحان ہے..

اب تو غلطیوں کی نشاندہی کا بھی وقت نہیں رہا.. ایک دوسرے کی مدد ہی اکیلا آپشن ہے، صورت حال بدترین ہے... اللہ ہی مددگار ہے اور اسی سے مدد طلب ہے.. اے اللہ اپنے بےبس اور بے تدبیر بندوں کی مدد فرما.