
برسوں لگى رہى ہيں ان مہر ومہ كى آنكهيں
تب كوئى ہم سا صاحب صاحب نظر بنے ہے
ابهى خبر ملى كہ آج (بروز چہار شنبه 9 رمضان المبارك 1442ه مطابق 21 اپريل 2021) ہندوستان كے معروف اسلامى مفكر ومصنف مولانا وحيد الدين خان كا چهيانوے سال كى عمر ميں انتقال ہوگيا، كئى دہائيوں سے بر صغير ميں ان كى انفراديت مسلم تهى، وه تقليد ، قدامت پسندى اور اكابر پرستى سے دور تھے ، مجتہدانہ اور محققانہ شان كے حامل تھے ، اور ان كو تخليق وابتكار سے دلچسپى تهى، وه "نہيں" كو "ہيں" ميں بدلنے كے قائل تهے، اور اس كے لئے ہر قسم كى جد وجہد كرتے، يہ انہيں كا قول ہے: "جو لوگ تخليق كى صلاحيت كھو ديں، وه كسى اور چيز كے ذريعہ يہاں اپنا مقام نہيں پاسكتے، خواه وه كتنا ہى شور وغل كريں، خواه ان كے فرياد واحتجاج كے الفاظ سے تمام زمين وآسمان گونج اٹھیں ، وه لاؤڈ اسپيكروں كا شور تو برپا كرسكتے ہيں، مگر وه استحكام كا خاموش قلعہ كبهى كهڑا نہيں كرسكتے" (كتاب زندگى ص 11) ۔
مولانا كى پيدائش اعظم گڑه كے ايك گاؤں ميں ہوئى تھی، مدرسة الاصلاح سرائے مير ميں تعليم پائى، ذاتى محنت سے انگريزى ميں دسترس حاصل كى اور علوم جديده كا گہرائى سے مطالعه كيا، دار العلوم ندوة العلماء ميں قيام كے دوران اپنى سب سے معركة الآراء كتاب مذہب اور جديد چيلنج تصنيف كى، جو مجلس تحقيقات ونشريات اسلام سے سنه 1966 ميں شائع ہوئى، اور اس كا عربى ترجمه "الاسلام يتحدى" كے نام سے كويت سے سنه 1970 ميں طبع ہوا، جماعت اسلامى سے وابستہ رہے، الجمعيت ميں كچه روز كام كيا، پھر سب سے الگ ہوكر اپنى منفرد شناخت بنائى، اور مثبت تحريروں كے ذريعه فكر اسلامى كے ارتقاء ميں حصه ليا ۔
ندوه كى طالبعلمى سے ميں ,,الرسالة ,, كا قارى رہا ہوں، اور ہميشہ مولانا كے مضاميں بڑے شوق سے پڑهتا ، مولانا ريڈرز ڈائجسٹ اور انگريزى اخبارات اور مجلات سے چھوٹى كہانيوں كو ليكر ان سے بہترين استنتاج كرتے تهے، انگريزى مواد سے غير معمولى شغف كى وجه سے ان پر انگريزى تعبيرات كا غلبہ ہوگيا تھا، اس سے ان كى اردو بھى متاثر ہوئى، جس طرح كہ ہمارے بہت سے علماء پر عربى تعبيرات كا غلبہ رہتا ہے، علامه شبلى ، علامه سيد سليمان ندوى، مولانا سيد ابو الحسن على ندوى،اور مولانا مودودى كے بعد علماء ميں وه لوگ نادر الوجود ہيں جو خالص اور مستند اردو لكھتے ہوں ۔
مولانا سے پہلى ملاقات نظام الدين ميں ان كے گھر پر سنه 1983 ميں ہوئى، وه ابھى جلد ہى وہاں منتقل ہوئے تھے، اس وقت وه زياد تر نمازيں مركز نظام الدين ميں ادا كرتے تھے، اور تبليغى جماعت كى افاديت كے قائل تھے، بعد ميں تبليغ كے متعلق ان كى رائے بدل گئى تھى، اس ملاقات ميں ان سے ايك خاص تعلق ہوگيا تھا، پهر جب بھى دلى جانا ہوتا تو ان سے ملاقات كى كوشش كرتا، مولانا كے صاحبزادے جناب ڈاكٹر ثانى اثنين خان اور ان كى پوتياں يہاں آكسفورڈ مجھ سے ملاقات كے لئے بھى آئے، اور ان سے ايميل كے ذريعہ وقتا فوقتا رابطہ بھى رہا، ہر ملاقات ميں مولانا اپنى كوئى نہ كوئى كتاب ضرور ہديه كرتے، اور ان كى گفتگو سے فكر ونظر كے نئے دريچے وا ہوتے، ايك بار ان سے ملاقات كے لئے حاضر ہوا تو اپنے گھر كے سارے افراد كو بلايا اور مجھ سے كچه نصيحت كرنے كے لئے فرمايا، ميں نے عرض كيا كہ آپ كے سامنے كچھ كہنے كى ہمت نہيں پڑتى، مگر مولانا كا اصرار جارى رہا تو مولانا ہى كى زندگى كے كچھ اسباق ان كے سامنے ركھے، مولانا نے ايك بار مجھ سے ميرى كتاب محدثات كے متعلق دريافت كيا اور پوچها كه ان خواتين كى زندگى ميں غير مسلم عورتوں كے لئے سيكھنے كى كيا چيز ہے؟ ميں نے كسى وجہ سے اس موضوع پر گفتگو كرنے سے معذرت كرلى ۔
انہوں نے بڑى فعال، متحرك اور سرگرم زندگى گزارى، وه ايك محنتى انسان تھے، راحت طلبى سے كوسوں دور تھے، ايك بار گرميوں ميں ان سے ملنے گيا تو اپنے بالائى كمره ميں سخت گرمى ميں اپنے كام ميں مشغول تھے، چھت كى تپش جسم پر محسوس ہو رہى تھى، ہم لوگوں كے لئے وہاں بيٹھنا مشكل تھا، ميں نے عرض كيا كہ اس گرمى ميں آپ كو كسى ٹھنڈے كمره ميں كام كرنا چاہئے تو انہوں نے كہا كہ مجھے اس كى عادت ہوگئى ہے، اور كچھ پتہ نہيں چلتا، محنت كا يہ جذبہ ان كى حيرت انگيز كاركردگى كى روح ہے، ان كى يہ بات بڑى قيمتى ہے:"حقيقت يہ ہے كہ تمام علوم محنت كى درسگاه ميں پڑھائے جاتے ہيں، تمام ترقياں محنت كى قيمت دے كر حاصل ہوتى ہيں، اور محنت وه چيز ہے جو ہر آدمى كو حاصل رہتى ہے، حتى كہُ اس آدمى كو بهى جس كو بيمارى نے معذور بناديا ہو، جو كالج اور يونيورسٹى كى ڈگرى لينے ميں ناكام ثابت ہوا ہو، محنت ايك ايسا سرمايہ ہے جو كبهى كسى كے لئے ختم نہيں ہوتا" (كتاب زندگى ص 12) ۔
مولانا بنيادى طور پر ايك مفكر ودانشور تهے، يعنى وه جذبات واحساسات كى گرفت سے آزاد ہوكر عقل كى رہبرى ميں كوئى بات كہتے تهے يا كوئى اقدام كرتے تهے، بر صغير ميں عام مسلمان رہنما اس فكر ميں رہتے ہيں كہ كہيں ان كا حلقہ ان سے كٹ نه جائے، كہيں ان كى مقبوليت پر آنچ نہ آجائے، نتيجہ ہے كہ ان كى فكر رسوم وروايات كى بندشوں سے نكل نہيں پاتى، اور وه اسى دائره ميں گردش كرتے رہتے ہيں، انہيں نہ دوسرے جہانوں كا علم ہوتا ہے اور نہ اپنے بادۂ دردى آميز كے سوا كسى شراب خالص وصافى كى جستجو ہوتى ہے:
آئين نو سے ڈرنا طرز كہن پہ اڑنا
منزل يہى كٹهن ہے قوموں كى زندگى ميں
مولانا كا خيال تها كہ ہندوستان كے علما ء ومصلحين روح عصر سے خالى ہيں، انہيں يه اندازه نہيں كہ آزادى كے بعد ايك نئے ہندوستان نے جنم ليا ہے، ان كے رويوں سے لگتا ہے كہ گويا وه مغليہ دور ميں، يا خلافت عباسيہ ميں، يا عہد آل عثمان ميں جى رہے ہيں، كور پسندى اور غفلت كے اس ماحول ميں وه تنہا مفكر ہيں جو روح عصر كى منادى كرتا ہے، طبقۂ علماء ميں اس وقت ان كے علاوه كوئى نہيں جو عصرى اسلوب ميں لكهتا ہو، اس ميں شايد كچه مبالغه ہو، ليكن اس سے كون انكار كرسكتا ہے كہ جس استقلال كے ساته انہوں نے اپنے زمانہ كے انسانوں كو خود ان كى زبانوں ميں پيغام حق سنانے كى ذمہ دارى نبهائى ہے وه ان كا عظيم كارنامہ ہے ۔
ان كو سوچنے كى عادت تهى، اور اس دائره سے باہر نكل كر سوچتے تهے جس كے اندر عام پڑهے لكهے لوگ مقيد ہوتے ہيں، اور جس سے نكلنے كى نہيں سوچ سكتے، بلكہ نكلنے كو كفر وفسق سے تعبير كرتے ہيں، مولانا ان بندشوں سے آزاد تهے، ان كى يه بات بالكل سچ ہے: "ہر زمانه ميں ايسا ہوتا ہے كہ بعض خيالات آدمى كے ذہن پر اتنا زياده چها جاتے ہيں كه ان سے نكل كر آزادانہ طور پر سوچنا آدمى كے لئے نا ممكن ہو جاتا ہے، يه مذہبى دائره ميں بهى ہوتا ہے، اور غير مذہبى دائره ميں بهى، يه بند ذہن ہر قسم كى ترقى كے لئے سب سے بڑى ركاوٹ ہے" (كتاب زندگى ص 39) ۔
اس پر ان كا ايمان واجب الاذعان تها كہ مسلمانوں كى ترقى كا راستہ پر امن ماحول ميں كام كرنا ہے، ان كا يه ارشاد گرامى اسلامى مراجع كے وسيع وعميق مطالعہ كا ثمره ہے: "حقيقت يه ہے كه اسلام ميں امن كى حيثيت عموم (rule) كى ہے، اورجنگ كى حيثيت صرف استثناء (exception) كى، اسلام كى تمام تعليمات اور پيغمبر اسلام كى عملى زندگى اس كى تصديق كرتى ہے" (امن عالم ص 13) ۔
انہوں نے لوگوں سے اختلاف كيا اور لوگوں نے ان سے اختلاف كيا، اور اختلاف اگر مہذب اور معقول ہو تو افكار ونظريات كى تطہير كا ذريعہ ہوتا ہے، مگر افسوس كہ ان كے متعلق بدگمانياں بہت پهيلائى گئيں، ان كے خيالات كو صحيح ومعتدل معيار پر نہيں جانچا گيا، خود مولانا نے علامه اقبال، مولانا مودودى، اور مولانا ابو الحسن ندوى رحمہم الله پر جو تنقيديں كيں ان ميں نقائص تھے، انہوں نے ان بزرگوں كے سياق كو سمجهنے كى كوشش نہيں كى، اور كہيں كہيں صاف معلوم ہوتا ہے كہ ان كى تنقيد بالكل بيجا ہے ۔
مولانا نه فقيہ تهے، نه محدث اور نه قديم علوم كے ماہر، وه ہندوستان كے موجوده ماحول ميں مسلمانوں كو زنده رہنے، پر امن طريقه سے اسلام كى تعليم اور دعوت عام كرنے اور ترقى كى راه پر گام زن ہونے كا درس ديتے تهے، وه ممكن كى موجودگى ميں ناممكن كے پيچهے وقت ضائع كرنے كو بيوقوفى سمجهتے تهے، واقعہ ہے كہ متعدد حيثيتوں سے ان كا طريقۂ كار قابل عمل ہے، اور شايد آئنده ان كے مخالفين بهى وہى باتيں كريں گے جن پر اب تك تنقيد كرتے رہے ہيں ۔
كون ہے جو اس كا اعتراف نه كرے كہ مولانا نے بے شمار انسانوں كے ذہنوں كو متاثر كيا، ان كى تحريروں نے جديد تعليم يافتہ طبقہ كى رہنمائى ميں بڑا كردار ادا كيا، انہوں نے مثبت اور پر امن طريقہ سے ٹهوس اور پائيدار كام كرنے كا نمونہ پيش كيا، اور كتنے مايوس لوگوں كو ياس ونا اميدى سے نكالا اور انہيں جينے كا حوصلہ ديا ، وه يہ كہہ سكتے ہيں "شادم از زندگى خويش كہ كارے كردم"، رحمه الله رحمة واسعة ۔