
28 ستمبر 2023 کی شام دوحہ کی سر زمین بقعۂ نور بنی ہوئی تھی، اس شام ایک ایسی ایمانی محفل آراستہ تھی جس کا نظارہ مدتوں سے سر زمین دوحہ نے نہیں کیا تھا، ایک ایسی روح پرور فضا چھائی ہوئی تھی جہاں علم ومعرفت کے موتی بکھر رہے تھے، ایک ایسا علمی وروحانی ماحول برپا تھا جہاں تشنگان علم ومعرفت اپنی پیاس بجھا رہے تھے۔ موقع تھا تحریک ندوہ کے پیغام اور اس کے بانیان کو یاد کرنے کا کہ جس کو شروع ہوئے 132 سال گزر چکے ہیں اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کہ جس کو قائم ہوئے 125 سال گزر چکے ہیں، جس نے برصغیر ہندوپاک ہی نہیں عالم عرب پر بھی اپنے اثرات ڈالے ہیں۔ اور اپنی گراں قدر خدمات سے امت اسلامیہ کو مالا مال کیا ہے۔
اس پروگرام میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے ناظم ندوۃ العلماء مولانا سید بلال عبد الحئی حسنی ندوی مدعو تھے جو حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کے علمی وفکری اور روحانی جانشین ہیں اور اپنی گفتار وکردار اور اسلوب حیات میں ان کا عکس جمیل ہیں۔
28 ستمبر 2023 کی شام ملینیم ہوٹل دوحہ قطر میں مذکورہ پروگرام کا انعقاد ہوا، قاری سلمان ابراہیم نے تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز کیا اور ایک سماں باندھ دیا، اس کے بعد جناب ڈاکٹر عطاء الرحمن صدیقی ندوی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور مہمان ذی وقار مولانا سید بلال عبد الحئی حسنی ندوی حفظہ اللہ کا اس شعر کے ساتھ پر جوش استقبال کیا ؏
ایسے اسلاف سے ملتا ہے تمہارا شجرہ
جن کے قدموں میں کئی تاج پڑے رہتے ہیں
آپ کی آمد کا خیر مقدم کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ”آپ کی شخصیت کے پس منظر میں دریائے گومتی کے کنارے فرزندانِ ندوہ کی یادوں کا تاج محل جگمگا رہا ہے، دار العلوم کی پُر شکوہ عمارت کے ہر گنبد ومینار پر فکرو فن، علم وادب اور دین ودعوت کے چراغ روشن ہیں جن کے فیض سے ہند سے جاپان تک اور امریکہ سے کناڈا وبرطانیہ تک فکر اسلامی کا نور درخشاں ہے، ہمیں یقین ہے کہ ندوہ آپ کی سربراہی میں اپنی افادیت واہمیت کے نئے سنگ میل نصب کرے گا“
خطبہ استقبالیہ کے بعد مہمانوں کی تکریم کی گئی، دوحہ قطر میں مقیم سینئر ندوی اور سرپرست جناب محمد رفیق ندوی نے ندوہ کے مایہ ناز استاذ مولانا محمد وثیق ندوی کی شال پوشی کی اور محمد اسلم عزیز ندوی نے ان کی خدمت میں گلدستہ پیش کیا، مولانا محمد وثیق ندوی نے حال ہی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، اس مناسبت سے ناظم ندوۃ العلماء مولانا سید بلال حسنی ندوی کے دست مبارک سے انھیں میمنٹو پیش کیا گیا، ڈاکٹر عادل حسن امین حرازی ندوی جن کا تعلق یمن سے ہے اور جو ندوہ کے ایک مایہ ناز سپوت ہیں ان کی خدمت میں جناب محمد فاروق ندوی نے گلدستہ پیش کیا، پروگرام چونکہ سرزمین عرب میں منعقد ہو رہا تھا اس لیے عربی روایت کے مطابق شیخ عادل حرازی ندوی نے مہمان خصوصی جناب مولانا بلال حسنی ندوی کی بشت پوشی کی اور ندوہ الومنائی ایسوسی ایشن قطر کے صدر جناب مولانا عبد الحئ اقبال ندوی نے مولانا کی خدمت میں گلدستہ عقیدت ومحبت پیش کیا۔
اس دلفریب منظر کے بعد ڈاکٹر احتشام الدین ندوی نے اپنی ٹیم کے ساتھ ترانہ ندوہ پیش کیا، ترانہ کیا پیش کیا ساز دل پر ایک نغمہ چھیڑ دیا اور اس وادی عشق میں پہونچا دیا جہاں ہماری یادوں کا حسین تاج محل آباد ہے اور بلا اختیار زبان پر اختر انصاری کا یہ شعر آگیا ؏
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
اس کے بعد مفتی طارق اقبال ندوی (میڈیا سکریٹری) نے ندوہ الومنائی ایسوسی ایشن قطر کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ: ”ابناء ندوہ قطر کی تنظیم سن 1997ء سے ہی قائم ہے جو روزِ اوّل سے مخلص ندویوں کی سرپرستی میں اپنے نصب العین کو بروئے کار لانے کے لئے سرگرم عمل ہے، سہ ماہی پروگرام منعقد کرنا، ندوی مصنفین کی حوصلہ افزائی کرنا، کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ قائم کرنا، تحقیقی کاموں کے لئے ندوی فضلاء کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا، ندوہ کو ہر طرح کا ممکنہ تعاون پیش کرنا، اسکے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنا، وہاں کے ارباب حلّ وعقد کی تائید وحمایت کرنا، اساتذہ و طلبہ کا حسبِ امکان تعاون کرنا، افکار ندوہ کی ترویج واشاعت کرنا، قطر میں مقیم تمام ندویوں کو جوڑ کر رکھنا، ندوہ الومنائی ایسوسی ایشن قطر کے اغراض ومقاصد میں شامل ہیں۔
اس مبارک موقع پر دو تازہ ترین عربی کتابوں کا اجراء بھی عمل میں آیا:
(1) پہلی کتاب "منہج الشیخ أبي الحسن علي الحسني الندوي فی الفکر والدعوۃ" ہے جس کے مصنف مولانا سید بلال عبد الحئ حسنی ندوی ہیں، اس کتاب کا تعارف کراتے ہوئے ڈاکٹر حسیب الرحمن ندوی نے کہا کہ "یہ کتاب حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کی ہمہ جہت شخصیت سے بحث کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی دعوتی اور فکری زندگی میں کیسے نقوش چھوڑے ہیں اور ہم کس طرح ان سے مستفید ہو سکتے ہیں"۔
دوسری کتاب "مع القرآن الکریم ـ نظرات وتأملات" کا تعارف پیش کرتے ہوئے متعدد کتابوں کے مصنف اور محقق مولانا رحمت اللہ صاحب ندوی نے کہا کہ ”اس کتاب میں حضرت مولانا علی میاں علیہ الرحمہ کی قرآنیات سے متعلق وہ تحریریں ہیں جو اردو زبان میں مختلف مواقع پر منتخب آیاتِ قرآنی کی تفسیر وتوضیح کے طور پر تحریر کی گئی ہیں، اس کتاب کو عربی زبان میں منتقل کرنے کی سعادت جناب مولانا طارق اکرمی ندوی صاحب کو حاصل ہوئی ہے، یہ کتاب قرآن کریم کے فضائل، اسکی تعلیمات، منتخب آیات کی تفاسیر سے مستنبط دروس وعبر اور مواعظ ونصائح کا بہت ہی خوبصورت علمی گلدستہ ہے جو دار القلم دمشق سے حضرت مولانا بلال عبد الحئ حسنی ندوی کے وقیع مقدمہ کے ساتھ شائع ہوئی ہے"۔ مولانا رحمت اللہ ندوی صاحب نے حضرت مولانا علیہ الرحمۃ کی شان میں عربی زبان میں ایک قصیدہ بھی پیش کیا جس سے مجلس میں ایک نیا آہنگ پیدا ہوگیا۔
ناظمِ ندوہ کوئی محتاج تعارف شخصیت نہیں ہیں تاہم شرکاءِ بزم میں دوسری تنظیموں اور اداروں کے ذمہ دار و نمائندے بھی موجود تھے اس لئے ان کا خیال کرتے ہوئے جناب فاروق عبداللہ ندوی (جوائنٹ میڈیا سکریٹری) نے مولانا سید بلال عبد الحئ حسنی ندوی کا مختصر تعارف پیش کیا۔
اس کے بعد کلیدی خطبہ کے لیے مولانا موصوف کو دعوت دی گئی، موضوع تھا "عصر حاضر میں تحریک ندوہ کی اہمیت وافادیت"،
اس موضوع پر مولانا نے بہت طاقتور خطاب فرمایا اور تحریک ندوہ کی بہت جاندار اور مدلل تشریح فرمائی اور بہت سے ان پہلوؤں کا تشفی بخش جواب تھا جن کے تعلق سے غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔
مولانا نے حاضرین مجلس اور بالخصوص ابناء ندوہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ:
” آپ کی بنیادی ذمہ داری انذار ِقوم ہے کیونکہ ندوہ نے آپ کو فکر کی بلندی، فہم کی گہرائی، عقیدہ کی پختگی، رسوخ فی العلم، زبانِ ہوشمند اور فکر ارجمند سے نوازا ہے، اور اس وقت اسلام اور مسلمانوں پر چوطرفہ یلغار ہو رہی ہے، چنانچہ اس وقت فضلاء ندوہ پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اس طوفان بلاخیز کا سامنا کریں، اعتراضات کا بھرپور عصری اور علمی اسلوب میں جواب دیں، دعوتِ اسلام کو خوش اسلوبی سے پیش کریں تو یقیناً حالات میں تبدیلی آئے گی، اسلام کی پھر سے آبیاری ہوگی، ایمان کی بادِ بہاری چلے گی اور دین کی اشاعت میں ہمارا بھی کچھ کردار ہوگا۔
مولانا نے مزید فرمایا کہ ادارے بذات خود مقصود نہیں ہیں بلکہ اصل مقصد دعوت دین ہے، ہمیں دعوت دین کا کام کرنا چاہئے اور اس کی نشر واشاعت کے لیے تمام جدید وسائل کو اختیار کیا جانا چاہئے ۔
مولانا موصوف کی تقریر ختم ہونے کے بعد ناظم پروگرام نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا خطاب سن کر ہمیں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ ہم سے مخاطب ہوں۔
یہ پروگرام ندوہ الومنائی قطر کی 26 سالہ تاریخ کا ایک اہم پروگرام تھا، سارا ہال کیف وسرور سے معمور تھا، سامنے لگی اسکرین پر نظماء ندوہ، دارالعلوم کے مہتم صاحبان، عالمی شہرت یافتہ ندوی فضلاء، ادباء، مصنفین اور مؤرخین کے اسمائے گرامی اور ان کی تصنیفات و تالیفات کی اجمالی جھلکیاں دعوتِ نظارہ دے رہی تھیں، عید جیسی چہل پہل تھی، نظم ونسق اور ڈسپلن میں یہ پروگرام اپنی نظیر آپ تھا، پروگرام کے اختتام پر ابناء ندوہ کی طرف سے عشائیہ کا بھی نظم تھا، دستِ خود دہانِ خویش (بوفیہ) نظام کے تحت تمام ہمنشینانِ بزم انواع و اقسام کے روایتی کھانوں سے خوب لطف اندوز ہوئے۔
ندوہ الومنائی ایسوسی ایشن قطر کے سرپرست اعلی اور ندوہ کے سابق استاد مولانا آفتاب صاحب ندوی نے انتہائی سنجیدگی و متانت کے ساتھ کلمات تشکر پیش کیے اور ایک انتہائی سینئر ندوی مولانا ظریف احمد ندوی صاحب کی دعا پر جلسہ کا اختتام ہوا ۔
نظامت کے فرائض بزم کے روحِ رواں اور ندوہ الومنائی ایسوسی ایشن قطر کے جنرل سکریٹری جناب محمد شاہد خاں ندوی نے بحسن وخوبی انجام دیئے۔
رپورٹ: طارق اقبال ندوی
)میڈیا سکریٹری - ندوہ الومنائی ایسوسی ایشن قطر(